پاکستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے لیے یہ وقت خوشی اور فخر کا ہے کہ عالمی جریدے Forbes Asia نے اپنی مشہور فہرست “100 to Watch 2025” میں پاکستان کے دو نمایاں فِنٹیک اسٹارٹ اپس Haball اور PostEx کو شامل کیا ہے۔ یہ فہرست ہر سال ان ابھرتے ہوئے اور بااثر کاروباری اداروں کو تسلیم کرتی ہے جو نہ صرف اپنے ملک بلکہ خطے اور عالمی سطح پر بھی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس فہرست میں شامل ہونا کسی بھی اسٹارٹ اپ کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس سے عالمی سرمایہ کاروں، کاروباری حلقوں اور پالیسی سازوں کی توجہ براہِ راست اس پر مرکوز ہوتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ خبر خوش آئند ہے کیونکہ یہاں اکثر نوجوانوں کو مواقع کی کمی اور سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن Haball اور PostEx کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے نوجوان اگر صحیح سمت میں محنت کریں اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنائیں تو وہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی شناخت قائم کر سکتے ہیں۔
Haball کی بات کی جائے تو اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں کاروبار سے کاروبار یعنی B2B ادائیگیوں کو ڈیجیٹل بنانا ہے۔ ملک میں اب بھی زیادہ تر کاروباری ادائیگیاں نقد یا چیک کے ذریعے ہوتی ہیں، جو وقت طلب اور غیر شفاف ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے جہاں ایک طرف بدعنوانی اور بلیک اکانومی کو فروغ ملتا ہے وہیں کاروباری اداروں کو بھی مالی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ Haball نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا ہے جو کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے درمیان ادائیگیوں کو نہ صرف فوری بلکہ مکمل طور پر شفاف بنا دیتا ہے۔
پاکستان میں B2B پیمنٹ مارکیٹ کا حجم 50 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ اتنی بڑی مارکیٹ ہے جو ابھی تک روایتی طریقوں پر چل رہی تھی۔ Haball اس مارکیٹ کو ڈیجیٹل فنانس کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف کاروباری لاگت کم ہو گی بلکہ وقت اور وسائل کی بھی بچت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کو ریئل ٹائم ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو گی، جس سے ان کے لیے مالی فیصلے کرنا آسان ہو جائے گا۔ Forbes نے Haball کی اس جدت اور مستقبل کے وژن کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے بننے والے ماڈلز کو عالمی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔
اب PostEx کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں ای-کامرس تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اب بھی 60 سے 70 فیصد آن لائن آرڈرز Cash on Delivery (COD) پر مبنی ہیں۔ یہ ماڈل بظاہر خریدار کے لیے آسان ہے لیکن کاروبار کے لیے شدید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ مرچنٹس کو ادائیگیوں کے حصول میں کئی دن بلکہ ہفتے لگ جاتے ہیں اور اکثر اوقات کیش فلو کا بحران ان کے کاروبار کو متاثر کرتا ہے۔ PostEx نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک انوکھا ماڈل بنایا جس میں فِنٹیک اور لاجسٹکس کو یکجا کر دیا گیا۔
PostEx نہ صرف مرچنٹس کے لیے ڈیلیوری کی سہولت فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں کیش ایڈوانس اور ورکنگ کیپیٹل بھی دیتا ہے۔ یوں مرچنٹس کے پاس اپنے کاروبار کو جاری رکھنے اور بڑھانے کے لیے سرمایہ میسر آتا ہے۔ یہ ماڈل خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے بہت اہم ہے، جو عام طور پر بینکنگ سہولت سے محروم رہتے ہیں۔ PostEx نے حالیہ برسوں میں 50 ملین ڈالر سے زائد فنڈنگ حاصل کی ہے اور کئی بڑی کورئیر کمپنیوں کو خرید کر اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا ہے۔ اس کی بدولت پاکستانی ای-کامرس مارکیٹ، جس کا حجم 2025 تک 10 ارب ڈالر تک پہنچنے کا اندازہ ہے، میں نئی جان آ گئی ہے۔
یہ دونوں اسٹارٹ اپس پاکستان کے نوجوانوں کی جدت اور وژن کی بہترین مثال ہیں۔ Haball اور PostEx کی عالمی سطح پر پہچان اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ موجود ہے، صرف اسے مواقع دینے کی ضرورت ہے۔ Forbes Asia کی فہرست میں شامل ہونا اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ یہاں کے نوجوان عملی مسائل کے حل کے لیے کس طرح جدت لا رہے ہیں۔
پاکستانی اسٹارٹ اپس نے گزشتہ چند برسوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ 2021 میں صرف ایک سال کے دوران پاکستانی اسٹارٹ اپس نے 350 ملین ڈالر سے زائد کی فنڈنگ حاصل کی تھی، جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا۔ فِنٹیک کے شعبے کو سرمایہ کاروں نے سب سے زیادہ ترجیح دی کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی تقریباً 70 فیصد بالغ افراد کے پاس بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیجیٹل فنانس کے میدان میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ Haball اور PostEx انہی مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابی کی نئی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔
اگر مستقبل کی طرف دیکھا جائے تو ان دونوں اسٹارٹ اپس کے پاس بہت بڑے امکانات موجود ہیں۔ Haball اور PostEx نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک جیسے مڈل ایسٹ اور افریقہ میں بھی اپنے ماڈلز کو لے جا سکتے ہیں، کیونکہ وہاں بھی کاروباری اور مالیاتی مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ اگر یہ کمپنیاں اسی رفتار سے ترقی کرتی رہیں تو آئندہ چند سالوں میں ان کے "یونیکورن” (یعنی ایک ارب ڈالر ویلیو والے اسٹارٹ اپ) بننے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
پاکستانی حکومت نے بھی حالیہ برسوں میں ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس کا ہدف ہے کہ 2030 تک ملک کی ڈیجیٹل اکانومی کا حجم 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہو۔ Haball اور PostEx جیسے اسٹارٹ اپس اس وژن کو حقیقت بنانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، سرمایہ کار اور کارپوریٹ سیکٹر مل کر ایسا ایکو سسٹم تشکیل دیں جو نوجوان انٹرپرینیورز کو مزید سہارا دے۔
یہ کامیابی ایک پیغام بھی ہے۔ یہ پیغام ان تمام نوجوانوں کے لیے ہے جو خواب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی محنت، وژن اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا میں مقام بنا سکتے ہیں۔ Haball اور PostEx نے دکھا دیا ہے کہ اگر ارادہ پکا ہو اور مسائل کا حل جدت سے نکالا جائے تو راستے خود بخود ہموار ہو جاتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ کامیابی صرف Haball اور PostEx کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستانی نوجوان دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر انہیں سہارا، مواقع اور سرمایہ فراہم کیا جائے تو وہ پاکستان کو صرف خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک طاقتور معیشت بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ لمحہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نوجوان حوصلہ رکھیں، اپنی محنت جاری رکھیں اور یہ یقین کریں کہ ان کی جدت اور وژن کو دنیا ایک دن ضرور تسلیم کرے گی۔