اسے گاؤں کا بابا بہت اچھا لگتاتھا وہ اکثر اس ڈبہ نما سنیما گھر کی ایک ہی فلم کو گندم کے دانوں کے عوض دیکھتا تھا اسے سکرین پر رنگ برنگی تصویریں اورساتھ ساتھ بابے کی کمنٹری”دیکھو جی دیکھو داتا کی نگری دیکھو،دیکھو جی دیکھو۔۔۔“ بہت بھاتی۔ایک دن اس نے بابے سے فلم دیکھ کر انکشاف کیا میں بھی بڑا ہو کر فلموں کی کہانیاں لکھو ں گا۔پھر تمہاری فلمیں چلیں گی کہاں۔۔؟ بابے نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔میری فلمیں بھی بند ہوں گی رنگ برنگے ڈبے میں اسے دیکھنے والے بہت ہوں گے۔اس نے اپنی پہلی کہانی استاد کی فرمائش پر ساتویں کلاس میں پوری کلاس کو سنائی تھی پہلے پیریڈ میں شروع ہونے والی کہانی کا آٹھویں پیریڈ تک انٹرول نہیں ہوا تھا اس کی کہانی کے درمیان ہی استاد سمیت تقریبا تمام طلبا اپنی،اپنی حوائج ضروریہ سے بھی فارغ ہو آئے تھے لیکن وہ آنکھیں بند کئے ”گھوڑے پہ گھوڑے“ دوڑاتا طالم جاگیر دار کا تعاقب کرتا رہا۔اس کا کہانی کا شوق اس کے ساتھ ہی جوان ہوا وہ اپنی ساتھی طالب علموں میں ایک کہانی کار کے نام سے مشہور تھا کالج کے دور میں اس کی کہانیوں میں ظالم جاگیر دار کے ساتھ،ساتھ ایک مٹیار کا اضافہ ہو گیا تھا جس کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے وہ اپنی شاعری کا بھی اضافہ کرتا جسے سننا بڑے حوصلے کا کام تھا۔وہ فلم انڈسٹری کے گیٹ سے اندر داخل ہو چکا تھا عشق و محبت کی پیار بھری فلمیں عروج پر تھیں سلطان راہی جیسے فنکار نستعلیق اردو میں بات کرتے نظر آتے تھے لیکن وہ سب اس کے لئے کتھارسس کا ذریعہ نہیں تھے جو کچھ معاشرے میں ہو رہا تھا وہ اس سلور سکرین پر نہیں تھا اسکی بشیرا ہٹ ہوئی تو ہر طرف اس کے نام کا توتی بولنے لگا ہر فلم ساز کی ڈیمانڈ اب اس کی کہانیاں تھیں وہ کہانیاں جو وہ بچپن سے اکٹھی کرتا چلا آرہا تھا جو اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں تھیں وحشی جٹ،مولا جٹ جیسی فلموں نے اسے قتل و غارت،قانون شکنی اور جبرو تشدد کا سمبل بنا دیا سنیما ہال سلطان راہی کی بڑھکوں کے جواب میں سنیما بین کی بڑھکوں اور پان کی پچکاریوں سے گونجتے رہے اس نے بہت کہا کہ میرے پاس ”یہ آدم“ جیسی کہانیاں بھی ہیں لیکن فلم سازوں نے اس کے اندر کے فنکار کو لاٹھیوں،کلہاڑیوں،گنڈاسوں اور بندوقوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔مولا جٹ مجموعی طور پر 310ہفتوں تک چلی اس کے بعد بھی یہ اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی لیکن انسانی ٹانگ کاٹنے کے ایک پر تشدد منظر پر اعتراض کے باعث چلتی ہوئی فلم کو بین کر دیا گیا یہ منظر 310ہفتوں کے بعد فلم سنسر بورڈ کو نظر آیا کہ انسانی ٹانگ کو کاٹنا ایک پر تشدد منظر ہے اس فلم میں گنڈاسے سے ہلاکت کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیاجو چائنا کی فلموں کی طرح ہوا میں بھی لہراتا ہوا بھی اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کرتا ہے سلور سکرین جہاں کسی دور میں پیار کے نغمے تھے وہاں اب گولیوں کی تڑتڑاہٹُ تھی اگر کوئی نغمہ فلم شامل بھی کیا جاتاتو بھی ہیرو ”وچوائی“ کے عالم میں ہی ہوتا تھا کیونکہ نغمے کے فورا بعد لڑائی کا سین شروع ہو جانا تھا یوں ہیرو نغمے کے دوران بھی لڑائی کی تیاری جاری ہی رکھتا۔سلطان راہی کی بے وقت موت کے بعد فلم انڈسٹری کے فنکار اس ذمہ داری کو بہ احسن طریقے سے نہیں نبھا پائے سلطان راہی جیسی بڑھک کوئی نہیں لگا پایا اورنہ ہی سلور سکرین پر چھائی ہوئی بارود کی بو کو کوئی پیار کی خوشبو میں بدل پایا ہے۔اس نے ایک بیان میں نے کل کے نہیں آج کے فل ساز کو فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا ہے جو رائٹر کی بجائے سپر سٹار کو ذیادہ معاوضہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر مختلف فورم پر فلم پڑھا رہا ہے یہ بتائے بغیر کہ دیو ہیکل ”ڈائنا سارز“ کیسے ختم ہوئے۔۔؟فلم انڈسٹری کی تباہی کا اصل ذمہ دار کون ہے۔۔؟ یہ شائد فلم سٹوڈیوز میں لگے ہوئے جالوں کی مکڑیوں کو بھی اچھی طرح پتہ ہے، ایک فلم نہیں بلکہ پوری فلم انڈسٹری ڈبے میں بند ہے بس ایک بابے کی ضرورت ہے جو اسے کندھے پر اٹھائے ہوئے کیمرے میں دکھاتے ہوئے کمنٹری کرئے ”دیکھو جی دیکھو پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج و زوال دیکھو،دیکھو شاہ نور سٹوڈیو کی مکڑیاں کیا کہہ رہی ہیں،دیکھو،جی دیکھو۔۔۔