میں نے غریب یا متوسط طبقے کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو زندگی کے بڑے مقابلوں میں حصہ نہ لیتے ہوئے دیکھا تو سخت مایوسی ہوئی حالانکہ وہ اُن مقابلوں میں شرکت کے حقدار تھے اور اہل بھی تھے….!
یہ مشکل سوال ہے کہ انہوں نے ایسے مقابلوں میں شرکت کیوں نا کی؟! کیا کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا کہ اُن میں کسی اور چیز کی کمی تھی؟! یہ سب بھی نہیں تھا…. اُن کی تعلیم، شخصیت، ارادہ اور اہلیت اُس معیار کی تھی کہ وہ اُن مقابلوں میں حصہ بھی لیتے اور کامیابی بھی اُن کے قدم چومتی مگر بہت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہم غریب یا متوسط طبقے کے لوگ گھر بیٹھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ہمیں وہاں کون گھسنے دے گا؟! کہیں ہماری بے عزتی نہ ہو جائے یہ اعتماد کی کمی بھی نہیں ہے…. یہ اِک انجا نہ خوف ہے جو ہمارے اندر نہیں تھا لیکن معاشرے نے ہمارے ہم عمر یا ہم عصروں نے سینہ بہ سینہ ہمیں دیا اور یہ ہماری زندگی کی رکاوٹ بن گیا…. یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو میں ہر نو عمر پاکستانی کو بتانا چاہتا ہوں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہر مسلم پاکستانی نوجوان کو اللہ پاک اور رسول پاک کی قسم کھا کر یہ سچ اگلنا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی سو فیصد معاشرہ کرپٹ نہیں ہے ابھی بھی سچائی موجود ہے ہمدری موجود ہے صرف ہمارے اندر اِک Shyness ہے جس نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم گھر بیٹھے ہی بہت سی چیزیں فروخت کر لیتے ہیں۔ یہ تمہید بڑی ضروری تھی…. اب میری سچی کہانی سُن لیں جو ایک غریب اور متوسط گھرانے کے نوجوان کی ہے آپ کو حیرت ہو گی؟
میں نے 1977-78ءمیں سائنس مضامین کے ساتھ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول بادامی باغ لاہور سے پاس کیا۔ میں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی کیونکہ میرے والد کے پاس حق حلال کی آمدن میں اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ مجھے کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھا سکتے۔ ٹاٹ پھٹا ہوت ا تھا اور دسمبر جنوری میں سخت سردی لگتی تھی مگر میں نے تو ہر حال میں پڑھنا تھا یہ میرا شوق تھا اور مجبوری بھی میٹرک تھا میرا نام بچوں کے ایک درمیانے سے لکھاری کے طور پر جانا جاتا تھا کیونکہ مجھے لکھنے لکھانے والے اور شاعر مزاج لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ حافظ مظفر محسن کو سکول کے دو ہزار بچے اچھی طرح جانتے تھے تلاوت قرآن پاک ہو، نعت رسول ہو، زلزلہ آجانے پر تقریر ہو یہاں تک کہ باکسنگ کا مقابلہ ہو میں ایک کمزور سا بچہ ان سب کاموں میں حصہ لیتا ہمت سے اور شوق سے…. باکسنگ میں مار پڑی اور میں نے مار کھا کے بھی اپنے سے لمبے اور طاقت والے کو بار بار اُٹھ اُٹھ کے یہ یقین دلا دیا کہ وہ ہار جائے گا اور یوں میں جیت گیا اور میری دھاک بیٹھ گئی کہ حافظ مظفر محسن بظاہر کمزور ہے لیکن اس کے اندر کوئی قوت ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میں حافظ قرآن تھا اور مجھے خوف محسوس نہ ہوتا تھا جناب یا ایسی غیر مرئی مخلوقات سے…. اُن بڑے پرانے اور گھنے درختوں کے نیچے سے میری عمر کا کوئی بچہ دن میں نہ گزرتا مگر میں رات میں بھی ایسی جگہوں پر جاتا اور مجھے آج خود پر حیرت ہوتی ہے کہ مجھے کیوں ڈر نہیں لگتا تھا۔ شاید وجہ یہ بھی تھی کہ میں غیر ارادی طور پر قرآن پاک پڑھتا رہتا یا اپنی ماں کے حکم پر اکثر درود پاک کا ورد کرتا رہتا…. یا اللہ جانتا ہے یہ سب کیا تھا؟ ایف ، ایس ، سی کرنے کے بعد میری خواہش تھی کہ میں فوج میں افسر بنوں، اخبار میں اشتہار آیا اور میں نے فوج میں کمیشن کے لیے apply کر دیا…. یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی والا کورس نہیں تھا یہ شارٹ سروس کمیشن تھا جو OTS آفیسر ٹریننگ سکول منگلا کیٹ میں ہورہا تھا…. پاکستان آرمی کے موجود چیف سید عاصم منیر بھی اسی OTS سے فارغ التحصیل ہیں یعنی رشتے میں ہم کالج فیلو ہیں۔ جب ابتدائی امتحانات پاس ہوئے اور پانچ روزہ انٹر سروسز سلیکشن بورڈ کو ہاٹ جاتا تھا تو لمبے قد والے امیر گھروں کے کلاس فیلوز نے خوب مذاق اڑایا اور سب نے کہا…. حافظ مظفر محسن کہا جا رہا ہے…. بے چارہ، بے عزت ہو کے آئے گا…. وغیرہ وغیرہ…. میں نے سب کو لطیفے سنائے اور اُس وقت چپ کرا دیا…. سب میری اس ”حرکت“ پر حیرت زدہ اور کچھ تو باقاعدہ خوفزدہ تھے حالانکہ وہ سب فوج میں کمیشن حاصل کرنا چاہتے تھے اور بنیادی قابلیت بھی تھی تعلیمی اور جسمانی لحاظ سے مگر اندر ہی اندر وہ سوچ رہے تھے کہ وہاں تو سفارش چلتی ہو گی…. یا کوئی اور طریقہ ہوتا ہو گا…. میری ماں کے علاوہ سب کو یقین تھا کہ یہ بچہ کوہاٹ سے ”بے عزت“ ہو کر آئے گا کیونکہ اس کو عادت ہے اپنے سے بڑے کاموں میں کود پڑنے کی۔ قصہ مختصر یہ کہ کوہاٹ میں بڑی ڈگریوں والے اندر سے کمزور دل پورے پاکستان سے آئے ہوئے تھے سب سے چھوٹا قد میرا تھا۔ میں نے وہاں پر کام میں ہمت سے مقابلہ کیا اور خوب جرا¿ت دکھائی۔ ہزاروں لوگ ایسے امتحانوں میں شریک ہوتے ہیں اور چند ایک کامیاب ہوتے ہیں۔ باقی سب کو وہاں آنے جانے کا پاک فوج کرایہ دیتی ہے اور سب واپس چل پڑتے ہیں۔ کوہاٹ میں آخری دن سب کو ایک جگہ بٹھا کر رزلٹ سنایا جاتا ہے سب دھڑکتے دلوں کے ساتھ رزلٹ سننے کے منتظر تھے۔ وردی میں ملبوس میجر جنرل نے امتحان کے نتیجے کا اعلان کیا اور میں وہاں پاس ہو گیا سب سے پہلا رزلٹ میرا تھا…. کچھ ساتھی مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور چند ایک محبت سے…. موبائل فون اُس وقت تھا نہیں ہمارے گھر میں دوسرا فون بھی نہ تھا اور میرا دل پھٹ رہا تھا کہ میں یہ خبر کسی طرح اپنی ماں کو سناو¿ں کہ میں فوج میں کمیشن کا حق دار قرار دیا جا چکا ہوں اور ماں تیرا بیٹا…. بغیر سفارش اسور دبغیر کسی تعلق کے پاک فوج میں افسر بھرتی ہو چکا ہے´
زندگی کے یہ سلسلے چلتے رہے۔ مختلف قسم کے امتحانات اور طرح طرح کی آزمائشیں آتی رہیں مگر اللہ پاک نے مجھے ہمت دی…. پہلی دفعہ لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں داخل ہونا پڑا تو میرے اکثر دوستوں نے اندر جانے سے انکار کر دیا…. خوف کا اظہار کیا مگر میں نے قدم بڑھایا اور پھر سب میرے پیچھے چل پڑے ۔ اگر آپ کی تعلیمی قابلیت ہے اور دیگر لوازمات بھی پورے ہیں تو کوشش ضرور کریں۔ پر ناکامی بغیر امتحان میں شریک ہوئے گھر بیٹھے تسلیم کر لینے والے…. ناکام لوگ کہلاتے ہیں اور جب آپ کسی ناکامی کو ایک بار خود ہی تسلیم کر لیں تو پھر ناکامیاں آپ کے دروازے پر دستک دیتی رہتی ہیں۔ میں نے گریڈ 20 تک سرکاری نوکری کی اور بیسیویں سکیل سے ریٹائرڈ ہوا ہوں۔ نہ تو کبھی سفارش کرائی نہ ہی کوئی اور ذریعہ استعمال کیا۔ البتہ ایک سب سے بڑی سفارش میرے پاس ہے اور مجھے اُس پر فخر ہے اور وہ ہے اللہ پاک وحدہ لاشریک۔
سب سے بڑی سفارش !!
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔
Good