یہ کہانی1987ء میں شروع ہوتی ہے ۔ امریکن ایئر لائن نے تب ایک سکیم شروع کی جس کے تحت اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی شہری ایئر لائن کا گولڈن ٹکٹ خریدے گا تو اسے تاحیات اس ایئر لائن میں مفت سفر کی سہولت حاصل رہے گی۔ اس گولڈن ٹکٹ کی قیمت 250,000 ڈالر یعنی اس وقت ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر تھی۔ اس وقت ایک امریکی شہری سٹیون روتھسٹین نے اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور ایئر لائن کی یہ گولڈن ٹکٹ خرید لی ۔ معاہدے کے مطابق ڈھائی لاکھ ڈالر ادا کرنے کے بعد اب اس گولڈن ٹکٹ کے ذریعے وہ امریکن ایئر لائن سے دنیا بھر میں فرسٹ کلاس سفر مفت کر سکتا تھا اور یہ پیشکس عمر بھر کے لیے تھی
ایئر لائن کی جانب سے ایک اور پیش کش یہ بھی تھی کہ گولڈن ٹکٹ کا مالک کسی بھی ایک شخص کو مفت میں جہاز کے سفر پر ساتھ لیجا سکتا تھا جس کے لیے اسے گولڈن ٹکٹ کے ساتھ قدرے کم مالیت کی ایک اور ٹکٹ خریدنی تھی اس دوسری ٹکٹ کی قیمت 150,000ڈالر یعنی ڈیڑھ لاکھ ڈالر تھی ۔ گولڈن ٹکٹ خریدنے والے سٹیون روتھسٹین نے یہ دوسری ٹکٹ بھی خرید لی ۔
اسٹیو نے اس گولڈن ٹکٹ کے ذریعہ امریکی ایئر لائن کو رکشہ بنا دیااور اتنے سفر کیے جتنے عام شہری رکشہ میں بھی نہیں کرتا ۔ اس نے 2008 تک اسی گولڈن ٹکٹ پر 10,000 س دس ہزار سے زیادہ ہوائی سفر کیے ۔ یہ سفر اتنے دلچسپ تھے کہ امریکی ایئر لائن کا دماغ گھوم گیا
کبھی اسٹیو کا دل کرتا کہ فلاں ملک کے کسی خاص اور مشہور ریستوران کا سینڈوچ کھانا ہے یا کسی دور دراز کے ملک میں بننے والی مشہور برانڈ کی آئسکریم وہاں جاکر کھائی جائے تو وہ گولڈن ٹکٹ اٹھاتا اور ایئرپورٹ جا کر جہاز میں سوار ہو جاتا ۔ اس نے صبح سویرے کینیڈا کا سفر محض اس لیے بھی کیا کہ وہ اپنی بیوی کے لیے اس کی پسند کا کھانا لانا چاہتا تھا ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ وہ صبح اٹھتا ، ایئرپورٹ جاتا اور کینڈا کی فلائیٹ میں جا کر بیٹھ جاتا ۔ کینیڈا پہنچ کر وہ محض 50 ڈالر کا کھانا پیک کرواتا اور اگلی فلائٹ پر بیٹھ کر دوپہر کے کھانے سے پہلے گھر واپس پہنچ جاتا ۔ صرف جولائی 2004 میں اس نے 18 ممالک کا سفر کیا۔ وہ اپنے دوستوں کو فخریہ کہتا تھا کہ :میں کسی بھی وقت دنیا کے کسی بھی کونے میں جاسکتا ہوں.
اس نے 2008 تک تقریبا 20 سال کے عرصہ میں دس ہزار بار فضائی سفر کیا اور یہ سارا سفر 10 ملین میل کا فضائی سفر بنتا تھا۔اس نے 40 ملین فلائٹ پوائنٹس حاصل کئے۔ وہ صرف انگلینڈ ا 500 بار گیا ، آسٹریلیا70 بار گیا ، ٹوکیو 120 بار گیا۔
امریکی ایئر لائنز نے یہ سکیم اکٹھی رقم حاصل کرنے کے لیے متعارف کروائی تھی لیکن اس فقط اس ایک شخص اور ایک ٹکٹ کی وجہ سے ایئر لائن کو 21 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
اب کمپنی اسٹیو ن اس کی حرکتوں سے تنگ آچکی تھی اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کمپنی کا رویہ اس کے ساتھ سخت ہوتا گیا . اس ٹکٹ کے ایسے استعمال اور اس کی وجہ سے کمپنی کو ہونے والے خسارے نے کمپنی کے بڑوں کے ناک میں دم کر دیا تھا اور ان کے دماغ گھوم گئے تھے ، انہوں نے اسٹیون کے گولڈن ٹکٹ کو کسی بھی طرح روکنے یا ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا .
13 دسمبر 2008ء ک اسٹیو کی زندگی کا خوفناک دن تھا . وہ معمول کے مطابق اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی ملک جانے کے لیے ایئرپورٹ آیا تو اسے ائیرپورٹ سیکیورٹی اور جہاز کے عملے نے روک لیا. انہوں نے اسے بتایا کہ اس کا گولڈن ٹکٹ اب ناقابل استعمال ہوچکا ہےاور کمپنی نے اس کا اکاؤنٹ بند کردیا ہے ۔
یہ سب سن کر سٹیو کو جھٹکا لگا اور دوست کے سامنے سبکی کا احساس بھی ہوا ۔اس نے اپنے دوست سے معذرت کی اور سخت صدمے کی حالت میں گھر واپس آگیا. اس کے لیے یہ سب ناقابل یقین تھا لہذا وہ شدید ڈپریشن میں چلا گیا . اسے کئی راتوں تک نیند ہی نہیں آئی ۔
چند دن بعد اسٹیو نے امریکن ایئرلائنز پر مقدمہ کر دیا . اس نے موقف اپنایا کہ ایک تو اس کی بے عرتی ہوئی ہے دوسرا ایرلائن نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی تھی ۔
اس نے عدالت میں مقدمہ درج کرواتے وقت اپنی شکایت میں لکھا کہ امریکہ آزادی، انصاف اور جمہوریت کا علمبردار ملک ہے. اور امریکن ائرلائن نے اسے اس کے پسندیدہ مشغلے (سفر) سے دور رکھ کر جہاں اس کی شخصی آزادی پر قدغن لگائی ہے، وہاں پر اس ناانصافی کی وجہ سے اس کی زندگی بھی برباد ہو کر رہ گئی ہے ۔ایرلائن کمپنی اپنے وعدوں سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے، زیادتی اور ناانصافی کی مرتکب ہوئی ہے. اس نے کہا کہہ ٹکٹ کینسل کرنے والے عہدیداران اور ذمہ داران نے، ایرلائن کمپنی، عوام اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سراسر دانستہ کوشش کی ہے. اس کی ابتر ذہنی حالت کی وجہ بھی کمپنی کا غلط فیصلہ ہے، لہٰذا میں کمپنی پر ہرجانے کا دعویٰ کرتا ہوں، اور عدالت سے استدعا کرتا ہوں کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے.
عدالت میں گولڈن ٹکٹ کی شرائط و ضوابط کے مطابق کمپنی کا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور سٹیون روتھسٹین کو 3 ملین ڈالر کا ہرجانہ اد کیا گیا۔ اور ساتھ ساتھ اس کا تاحیات سفری گولڈن ٹکٹ بھی بحال کردیا گیا.