بچپن سے اب تک کئی ایسی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں چھوٹے قد کے افراد یا تو مرکزی کرداروں کے مددگار روپ میں دکھائی دیتے یا پھر انہیں برائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تاہم بہت کم فلموں میں انہیں مثبت کردار میں پیش کیا گیا، یہی تاثر ناولوں میں بھی دیا گیا۔اردو میں بونے یا بالشتیا اور انگریزی میں انہیں Dwarf کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر فکشن میں بالشتیے ایک علامت ہے، حسد، برائی اور خوف کی۔جس کا تعلق قد سے نہیں سوچ سے ہے اور سوچ کے یہ بالشتیے کبھی بڑے نہیں ہوتے۔
The Hobbit،Snow White And The Seven Dwarfs ,Littleman ،Red shoes and the seven dwarfs،اسی تناظر میں بننے والی فلمیں ہیں اورPeter Dinklage کا شمار ہالی ووڈ کے کامیاب ترین پستہ قامت افراد میں کیا جاتا ہے مگر پیٹر اپنی سوچ و فکر میں بہت عظیم انسان ہے۔
میں جب یہ فلمیں دیکھتی تھی تو ایک خیال ذہن میں آتا تھا کہ انسان بڑا ہوتا ہے یا اس کا قد۔ کئی اور سوال جو پریشان کرتے،الجھ جاتی تو ابو سے پوچھ لیتی، ابو کا جواب ہوتا کہ انسان ہمیشہ اپنے کردار سے بڑا ہوتا ہے چاہیے وہ چھ فٹ کا ہو یا تین فٹ کا۔ یعنی اصل اہمیت انسان کے کردار، سوچ اور فکر کی ہے۔ مطالعہ بڑھا تو ایک اور بات نوٹ کی کہ انسان بیک وقت کئی کرداروں کا حامل ہے جسے’’Multiple faces‘‘کہا جاتاہے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کی اپنے لیے سوچ اور فکر الگ ہے، اپنے سے وابستہ افراد کے لیے الگ اور ایسے افراد کے لیے تو بالکل ہی مختلف ہے جن سے انکا تعلق مفاداتی ہے۔
انسانوں کی اکثریت بارے عمومی طور پر ایک رائے قائم ہے کہ وہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور غروب ہوتے سورج کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔بات ٹھیک ہے،آج کا دور مفادات کا دور ہے اور اپنے اپنے جائز اور ناجائز مفادات کی تکمیل کے لیے تعلقات بنا کر رکھنا عام سی روایت ہے۔ تاہم ان بڑوں کے سائے میں رہ کر کئی ’’بونے‘‘ بھی قد نکال لیتے ہیں،مگر یہ قد آور بونے ذہنی طور پر ہمیشہ بالشتیے ہی رہتے ہیں اور اپنی ذہنی پسماندگی سے کبھی آگے نہیں نکل پاتے۔ ایسے بونے اگر تخلیقی دنیا میں آ جائیں تو ان کی اس ہوس کا شکار حقیقی صلاحیتوں کے مالک افراد بنتے ہیں جنہیں یہ پینپنے نہیں دیتے۔ یہ صرف ایک ہی فن سے مالامال ہوتے ہیں اور وہ ہی خوشامد اور چاپلوسی کا فن۔کسی کی گود میں بیٹھ کر لکھنا، کسی کو گود میں بیٹھا کر لکھوانا اور مصنوعی نام و شہرت ان کے ماتھے کا جھومر بنا دینے سے وہ ادب کا فخر نہیں بن سکتے، اور یہ بھی لازم نہیں کسی کے حق میں لکھنے والا، اس کا جاننے والا یا چاہنے والا ہو۔
سہیل واڑیچ صاحب نے اپنے ایک کالم’’بونوں کا دیس‘‘ میں انگریزی ادیب جوناتھن سوئفٹ کے ناول Gulliver’s Travels ’’گلیورز ٹریولز‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس کو ادب اور سیاست دونوں میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ناول میںسوئفٹ میں للی پٹ (Lilliput) کے ایک جزیرے کا ذکر کیا گیا ہے جہاں چھ انچ قد کے بونے آباد تھے۔ ان کی اپنی اقدار اور اصول تھے۔بنیادی طور پر سوئفٹ نے بونوں کے دیس کی کہانی اپنے تخیل کی بنیاد پر لکھی اور اس کہانی کی علامات کے ذریعے برطانیہ اور دیگر ریاستوں کے اندر درباری سازشوں، خوشامدیوں اور مصنوعی کرداروں پر تنقید کی۔ یہ بونے فرضی اور تخیلاتی تھے مگر پروفیسر یوول نوح حراری کی کتاب "Sapiens”، انسان کی مختصر تاریخ‘‘ میں یہ سائنسی انکشاف کیا گیا ہے کہ ارتقا کے مراحل سے گزرتے ہوئے آج کے انسان (Homo sapiens) سے 12ہزار سال پہلے فلور جزیرے پر بونوں کی ہڈیاں اور آثار ملے ہیں، البتہ بونوں کی اس نسل کے جین آج کی انسانی نسل میں بھی موجود ہیں۔
پروفیسر یوول نوح حراری کے مطابق آج تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق جو قدیم ترین انسانی نام سامنے آیا ہے وہ ’’کشتم‘‘ ہے۔ اسی طرح جو سب سے پرانی تحریر دست یاب ہوئی وہ گندم کے حساب کتاب پر مبنی ہے اور انسانی موجودی کا سب سے پہلا احساس نشان انگوٹھا لگا کر کیا گیا۔ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ چھ قسم کی انسانی نسلوں اور قسموں کا سراغ ملتا ہے جن میں بونوں کی نسل کے علاوہ پانچ اور بھی قسمیں تھیں لیکن بالآخر موجودہ انسانی نسل Homo Sapiens نے سب کی جگہ لے لی اور پچھلے سیکڑوں سالوں سے پوری دنیا میں ایک بھی ذی نفس ایسا نہیں ملتا جس کا تعلق کسی اور انسانی قسم سے ہو۔
تاہم اب یہی ہے کہ سوئفٹ کے بونے ہوں یا پروفیسرحراری کے اصلی انسانی بونے، یہ عقل میں پورے انسان تھے ان کے صرف قد چھوٹے تھے، دماغ اتنے ہی بڑے تھے جتنے آج کی انسانی نسل کے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ بونے کا قد نہیں دل ناپو تبھی اس کے ارادوں کا علم ہوگا۔ تاہم میرا موضوع وہ ذہنی بونے ہیں جو مصنوعی طور پر آگے آ گئے یا لائے گئے۔ یہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے، اور کھاتے پیتے ہیں، مگر ہماری خوشیوں اور کامیابیوں سے اندر ہی اندر گھٹتے چلے جاتے ہیں اور نفرت سے بھرے، حسد سے لتھڑے، سازش سے لدے اور شرکی دولت سے مالا مال، اپنے کسی بھی ہم ذات کی ترقی سے خوف زدہ یہ بونے زندہ انسانوں کو نگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بالشتیے سو چ و فکر سے محروم ہوتے ہیں اور حقیقت میں سوچ کے بھی بالشتیے اور فکر کے بھی بونے نکلتے ہیں پھر ان کی حسد کی آگ میں ہم سب جلتے ہیں،کسی کا قلم، اس کی حرمت محفوظ نہیں رہتی اور یہ بالشتیا رویہ منتقل ہوتا ہے۔ معروف شاعر ’’صادق‘‘ ایک نظم میں یوں مخاطب ہیں،
کچھ نہیں جانتا
کس طرح آ گیا
میں ہوا کے بھیانک طلسمات میں
کوکھ سے جن کی تولید پاتے ہیں بالشتیے
روز و شب ہر گھڑی
مجھ میں در آتے ہیں بے اجازت
کھلی دیکھ کر کھڑکیاں اور در
موت اور زندگی ان کا ایک کھیل ہے
کیونکہ ہر ایک بالشتیہ
موت سے قبل جاں سونپ جاتا ہے
اپنے کسی جانشیں (دوسرے) کو
دوسرا تیسرا
اور پھر تیسرا چوتھے بالشتیے کو
اس طرح مرتے جیتے نراکار بالشتیوں اور ان کے
طلسمات کا سلسلہ
جنم سے آج تک سوچتا آ رہا ہوں
کتنا مجبور ہوں چاہتا ہوں
مگر ان طلسمات کا انت میں دیکھ سکتا نہیں
اور ان دیکھے بھی ان کا سر خفی مجھ کو معلوم ہے
ان طلسمات کا ایک قیدی ہوں میں
ان سے بچھڑا تو لا ریب مر جاؤں گا
یہ جو بکھرے تو میں خود بکھر جاؤں گا
۔۔۔اور پھر اپنا منہ کھول کر
مجھ کو سالم نگل جائے گی
ایک ڈائن زمیں