پاکستان کی مجموعی سیاست پر علاقائی سیاست کے اثرات انتہائی گہرے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر ملکی سیاست میں سے علاقائی سیاست کو ایک طرف رکھ دیں تو ملکی سیاست زیادہ دیر تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ری سکتی ۔ علاقائی سیاست آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے موجود ہے ، انگریزوں نے اسی علاقائی سیاست کو بنیاد بنا کر پورے برصغیر پر تقریباً دو سو سال تک حکومت کی۔ انہوں نے پہلے برصغیر کے چھوٹے چھوٹے راج واڑوں کے ساتھ سازباز کی اور پھر ان کے تعاون سے راجہ مہاراجوں تک رسائی حاصل کی اور پھر تحفظ اور اقتدار میں شراکت داری کا لالچ دے کر مرکزی حکومتوں کے خلاف بغاوت کی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے علاقائی سیاسی دھڑوں نے ملکی سیاست کا دھارا بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی یہی صورتحال ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علاقائی دھڑے کیسے تشکیل پاتے ہیں اور کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ؟ پاکستان کے ہر دوسرے علاقے میں برادری موجود ہے جو اپنے معاملات میں یہ دیکھتی ہے کہ ہمارے مفادات کا تحفظ کہاں اور کس حد تک ہو سکتا ہے اور مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ جس میں علاقے کی فلاح و بہبود ، نوجوانوں کے لیے سرکاری کوٹے میں روزگار وغیرہ شامل ہیں ۔ ہم وڈیرے یا جاگیرداری نظام کی بات نہیں کریں گے وہاں حصہ نہیں حکم چلتا ہے اور بڑوں کے حکم کی تعمیل سب پر واجب ہوتی ہے تاہم برادریوں میں حکم سے زیادہ مشاورت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔
اس تناظر میں ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی انتخابی تاریخ میں برادری ازم اور دھڑے بندی کی سیاست کو زیادہ تر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے موسوم کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں تو برادری، دھڑا اور شخصی طرزِ سیاست کو نیا موڑ ملا تھا جس نے ملکی سیاست کو بھی نیا موڑ دیا تھا۔
اس کے بعد برادری اور دھڑے کا گٹھ جوڑ کی طرزِ سیاست کا کھل کر اظہار 2018 کے عام انتخابات میں بھی دیکھا گیا، اگرچہ اُس وقت دھڑے بندی اور گٹھ جوڑ میں زمیندار طبقے سے زیادہ پیر خاندانوں کو دسترس حاصل ہو چکی تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پیر خاندان خود بڑے زمیندار ہونے کے ساتھ دیہی ووٹرز کو دوا نداز سے متاثر کرتے تھے، اوّل زمین دار کی حیثیت سے، دوم پیر (عقیدت) کی حیثیت سے۔ اور ایسے پیر خاندان پاکستان کے ہر دوسرے شہر میں موجود ہیں جو ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور برادری گٹھ جوڑ کے ساتھ یہ زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں ۔
پاکستان کی سیاست میں سے آپ اگر دھڑے ، برادریوں اور پیروں کے آستانوں کو نکال دیں تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا اور اگر انہیں ساتھ شامل کرتے ہیں تو پھر جمہوریت کی پرواز ہمیشہ سست روی کا شکار رہے گی اور معیشت نقصان میں۔