ہاں جی ۔۔ کہاں ہیں وہ دانشور ۔۔؟ کہاں ہیں عید کی فلمیں ؟ کیا صرف میرے لکھنے کی وجہ سے سینما سے اتار دی گئیں ہیں۔ ؟ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔۔۔
پانچ سال سے میں ہر قسم کی مخالفت برداشت کر کے اپنے موقف پر قائم رہا کہ کراچی سے بننے والی ڈرامہ نما فلمیں ری وائیول آف سینما نہیں ہے۔ یہ فلمیں نہیں ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے اس موقف پر قائم ہوں۔ کبھی مجھے تنگ نظر کہا جاتا رہا کبھی متعصب۔ ایک قدردان نے تو مجھے ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے تشبیہ دے دی۔ اور آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ جسے لوگ دنیا کا بہترین رائٹر کہتے تھے وہ 35 منٹ کی فلم لکھ کر منہ کے بل آن گرا ہے۔ کچھ لوگ جس ہدایتکار کو راجکمار ہیرانی کہتے تھے کہ لگاتار تین فلمیں سپرہٹ وہ ہدایتکار بھی آج 35 منٹ کی فلم بنا کر منہ چھپاتا پھر رہا ہے اور واپس ٹی وی کی طرف لوٹ کر کچھ ان کہی جیسا نام کر کے کوئی ڈرامہ اے آر وائی کے لئے بنا رہا ہے۔ اور جب میں کہتا تھا کہ ایسی فلموں کی تعریف نہ کریں یہ فلمیں زہر قاتل ہیں۔ اگر گھٹیا فلم کامیاب ہو جائے تو اسکی تعریف مت کریں یہ عارضی ہے یہ فلم کے نام پر ڈرامہ ہے یہ محدود فریم ہیں یہ محدود سوچ ہے۔ سینما اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تب صرف مجھے برا بھلا کہا جاتا تھا۔ میری شکایتیں لگائی جاتی تھیں۔ آج کہاں ہیں وہ ری وائیول آف سینما فرام کراچی ؟ کہاں ہیں ہمایوں سعید نبیل قریشی فہد مصطفی ندیم بیگ ۔ ؟ لوگ اپنی بلیک منی وائیٹ کر کے یہ جا وہ جا رفو چکر ہو گئے اور انکی فلموں پر اپنے حصے کے لنگر کے لئے مفت ٹکٹ کے لئے اشتہاروں کے لئے دھمالیں ڈالنے والے دھمالیے اب دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں۔
بیڑہ غرق ہوا ہمارے سینما کا ، ہماری فلموں کا ، ہمارے ماضی کا، ہمارے تابناک ماضی کا۔ ہمارے کائنڈ آف سینما کا، حقیقی فلموں کا ، ایورنیو اسٹوڈیو کا ، باری اسٹوڈیو کا، نگار خانوں کا اسٹوڈیو فلوروں کا۔ ہمارے قابل ترین فلم ٹیکشینز کا۔ ان کا کیا گیا۔ یہ تو آگ لگا کر اب ہاتھ سینک رہے ہیں۔ ایک فلم کے ریویو میں ، میں نے لکھا تھا کہ بندروں ہاتھ ماچس لگ گئی ہے آگ لگ کر رہے گی۔ میرے اس جملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن کیا یہ سچ ثابت ہونے پر وہ تمام لوگ اب ہوش کے ناخن لیں گے۔ ؟ مجھ سے معافی نہ مانگیں لیکن کیا اپنے گریبانوں میں جھانکیں گے۔ ؟
حل کیا ہے۔ ؟ حل صرف تعمیر نو ہے۔ اس انڈسٹری کے ماہر معماروں کو تعمیر نو کرنا ہو گی اور ایک ہو کر حکومت وقت سے اپنا حق لینا ہو گا۔ لاہور میں ایک جدید اسٹوڈیو کا قیام ، پوسٹ پروڈکشن کے لئے جدید ترین لیبارٹری ، 5.1 ساؤنڈ ، کلر گریڈنگ مکسنگ ڈیجیٹل سینما کے لوازمات کو پورا کرنے کے لیے تمام تر ٹیکنالوجی جب تک لاہور میں میسر نہیں آئے گی تب تک کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔ بجٹ میں مختص رقم کا پچاس فیصد بھی اس تعمیر نو پر لگ گیا تو انڈسٹری کی کایا پلٹ جائے گی۔ حکومت فلم بنانے کے لئے پیسے نہ دے بلکہ فلم بنانے کے لئے تمام تر سہولیات مہیا کرے۔ فلم بن گئی لگ گئی بات ختم لکڑ ہضم پیسہ ہضم۔ لیکن اگر اسٹوڈیو بن گئے لیبارٹری بن گئی تو کتنی فلمیں بنیں گی کس قدر زیادہ تعداد میں بنیں گی اور اس بڑی تعداد سے کتنا کوالٹی ورک نکلے گا کتنے مواقع حاصل ہوں گے کس قدر دیرپا فوائد حاصل ہوں گے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کتنا بڑا ٹرننگ پوائنٹ ہو گا ۔ یہ انڈسٹری ہمارا گھر ہے ۔ جب تک اس گھر کے لئے نیت نیک نہیں ہو گی تب تک کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ انفرادی طور پر کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔ "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” کا نتیجہ بھی سامنے ہے۔ اگر اس ٹیم کو انڈسٹری کا زرا سا بھی خیال ہوتا تو تین سو کروڑ میں سے 10 کروڑ کی پانچ فلمیں بھی شروع کر دیتے تو حالات ایسے نہ ہوتے جیسے آج ہیں۔ سینما پاکستانی فلموں سے ویران ہیں۔ خدارا اس عید پر ہونے والے وقوعے کو خطرے کی گھنٹی جان کر حالات کو سنبھال لیں۔ تمام تر جدوجہد کر کے لاہور میں فلم میکنگ کے لئے جدید ترین سہولیات حاصل کر لیں۔ پوسٹ پروڈکشن کی جدید لیبارٹری بنوا لیں۔ اسٹوڈیوز اپ گریڈ کروا لیں۔ اس سے زیادہ اور کتنا زوال دیکھنا ہے۔ ؟
جس طرح ماضی میں کراچی سے آنے والے لوگوں کو لاہور میں ویلکم کیا گیا ویسے ہی دوبارہ انکو ویلکم کریں گے۔ وہ لوگ حقیقی فلمی ماحول میں آ کر کام کریں گے تو ٹی وی کی محدود سوچ سے باہر آ جائیں گے۔ لاہور کا دل بہت بڑا ہے۔ کراچی والوں نے تو لاہور انڈسٹری کے لئے دروازے بند رکھے تھے لیکن یہاں ایسا نہیں ہو گا۔ ایک سال کے لئے فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کی چیئرمین شپ لینے سے کچھ بڑا سوچیں۔ کراچی والے اتنے میں ہی خوش ہیں کہ ہمیں ایک سال کے لئے عہدہ مل جاتا ہے۔ اس سے باہر نکلیں۔
الحمدللہ ان پانچ سالوں میں میرا لکھا ہوا ایک ایک حرف سچ ثابت ہوا ہے۔ یہ بھی لکھ کر رکھ لیں کہ جب تک لاہور میں جدید فلم میکنگ ، پوسٹ پروڈکشن کی سہولیات میسر نہیں آئیں گی تب تک حالات جوں کے توں رہیں گے۔
عید پر پاکستانی سینما ٹھنڈے .. . فلم انڈسٹری کےزوال کی وجوہات کیا؟
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔