ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

اس طرح تذلیل مت کیجئے !!

فیس بُک پر پابندیوں سے کچھ دن پہلے ایک پوسٹ نظر سے گزری ، جس کا لب لباب یہ تھا کہ لوگوں کو اپنے دستر خوان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کرنی چاہیں غریب "ہرٹ” ہوتے ہیں۔ جس پر کمنٹ کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ "میرے عام سے مشاہدے کے مطابق حقیقی غریب اور ضرورت مند بندے کے پاس تو بٹنوں والا موبائل ہوتا ہے اور کئیوں کے پاس نہیں بھی ہوتا۔ اگر ایک ہی گھر کے چار پانچ لوگ اینڈرائڈ سمارٹ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں وہ بھی انٹرنیٹ کے پیکجز کے ساتھ تو وہ غریب کیسے ہو گئے۔ ؟؟؟؟ میں تقسیم و ترسیل کے نظام سے وابستہ ہوں یہ جن کے نام پر آپ روک ٹوک لگا رہے ہیں،وہ تو برقی دنیا سے کوسوں دور ہیں” ۔

ردعمل میں آنے والا ایک کمنٹ کچھ اس طرح سے تھا کہ
"بہن ٹچ موبائل آج کل تین چار ہزار روپے میں بھی مل جاتا ہے، میں کئی ایسے سفید پوش لوگوں کو جانتا ہوں جن کے پاس ٹچ موبائل ہے لیکن بعض اوقات ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔اگر آپ کہیں کہ یہی موبائل بیچ دے تو اس سے اس دور میں ایک دو دن کا کھانا بن جائے گا آئندہ کے لیے کیا ہو گا؟اگلے کمنٹ میں موصوف فرماتے ہیں کہ "لگانے والے نہیں محترمہ لگتا ہے اس مہنگائی میں۔سالن روٹی گیس ملا کر دیکھیں تو ایک کٹوی کم از کم پانچ سو ہی میں تیار ہوتی ہے۔یہ میں ہلکی کٹوی کی بات کر رہا ہوں اچھے کھانے کی بات نہیں کر رہا۔
آپ کا میری رائے سے متفق ہونا قطعا ضروری نہیں نہ ہی میں نے کہا کہ بس میری ہی رائے حرف آخر ہے۔( میں نے کمنٹ کاپی پیسٹ کیا ہے اس لیے من و عن شئیر کیا ہے).

جس پر میں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک غریب فیملی ایک کٹوری پر پانچ سو روپے نہیں لگا سکتی۔ یہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔میں نے مزید لکھا کہ ایک دن میں پانچ سو روپے میں غریب مر کر بھی نہیں کھاتا اور وہ۔بھی ایک بندہ ایک کٹوری۔۔۔ اس طرح آپ کے حساب سے اگر پانچ فیملی ممبرز ہیں تو پانچ سو ایک کٹوری ملا کر پانچ کٹوریوں کے ہوئے 2500 ۔پھر وہ غریب تو نہ ہوئے جو ایک دن کے کھانے پر 2500 روپے خرچ کر رہے ہیں۔جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس کی دیہاڑی ہی پانچ چھ سو لگتی ہے ۔ آپ کے نزدیک آپ کی لوجک صحیح ہیں اور باقی ساری دنیا جھوٹی اور غلط ہے ۔ باقی آپ کا واسطہ مردوں سے پڑتا ہو گا جو جگاڑ لگا لیتے ہیں ۔میں نے پانچ چھ بچوں کی بیوہ ماؤں کی بات کی یا ان خواتین کی جنہوں نے مفلوج شوہر بھی سنبھالنے اور بچے بھی پالنے۔گھروں میں کام کرنے والی ان خواتین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ آپ کی تفریح کے لیے ٹچ موبائل پر تیس روپے کا انٹرنیٹ پیکج استعمال کریں۔

فرض کر لیں کہ ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کمانے والے ،ایک دن کے کھانے پر پانچ سو روپے لگاتے ہیں ۔مکان کا کرایہ ، ادوایات،دیگر کام وہ بھی ان پندرہ بیس ہزار روپے میں کھانے کے ساتھ ہی شامل ہے اور پانچ سو روپے اپنے ایک دن پر لگانے والے غریب تو نہ ہوئے پھر۔انہوں نے مزید بحث کرتے ہوئے گاڑی والو کو تنقید کا نشانہ بنایا تب میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ میرے پاس گاڑی نہیں ہے تو کیا نفسیاتی مریض بن جاؤں اور ان گاڑی والو پر پتھر برسانے لگ جاؤں ۔جو آپ کے پاس ہے اس پر کیوں نہیں راضی رہتے ،زیادہ کی خواہش ہے تو اپنے زرائع آمدن بڑھائیں ، لوگوں کے کھانے پینے پر انگلیاں نہ اٹھائیں ۔ فوڈ انڈسٹری سے کروڑوں لوگ وابستہ ہیں۔ ان کی مارکیٹ تو خراب نہ کریں ۔ یہاں پر ایک اور کمنٹ تھا کہ

باجی گاڑی کسی کے پاس جتنی مرضی بڑی ہو کوئی کھانا جتنے مرضی بڑے ہوٹلوں میں کھائے اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ میری دعا ہے اللہ تعالٰی اپکو بھی بڑی گاڑی دے آپ بڑے سے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھاؤ کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔ کھانے کی تصویر لگانا کسی بڑی آدمی یا شخصیت کے ساتھ تصویر کھچوانا اور پھر فیس بک پر لوڈ کر دینا اس لیے لگا دینا دیکھنے والا کہے کے واہ بڑا ہوٹل بڑا تعلق بڑی پہنچ بڑا پیسہ ایسے آدمی زہنی مریض ہے۔ کبھی کسی نے ریڑی والے سے نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے کی تصویر لگائی نہیں نہ کیوں کیوں کے وہ دوسروں کو دیکھانے کے لیے ایسا کرتا ہیں ۔ ( یہ کمنٹ بھی من و عن شئیر کیا ہے).

اب یہاں سے میرا میٹر گھوما، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ میں بھی ان باتوں کو برا سمجھتی تھی مگر آج میں اپنی اس سوچ کو امیچور اور بچکانہ قرار دیتی ہوں۔ فیس بُک کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان اپنے نظریات ، اپنے شوق ، مشاغل اور سرگرمیوں حتیٰ کہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو دنیا کے ساتھ شئیر کرے۔ سوشل میڈیا دقیانوسی اور غیر معقول نظریات کی اصلاح کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں سے ہمیں مارکیٹ ملتی ہے ۔ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے حقائق سمجھے۔ ہم نے دیکھا کہ عام آدمی کو صبر ، قناعت کی تبلیغ کرنے والے علماء بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں ۔ بڑے بڑے امیر لوگوں کے ساتھ اپنی تصاویر شئیر کرتے ہیں اور بھی بہت کچھ ہے ۔میرا آج بھی یہی موقف ہے کہ بہت زیادہ غریب لوگوں کے پاس موبائل فون کی سہولت ہی نہیں ہے کجا وہ بٹن والا ہو یا پھر ٹچ موبائل ۔ اگر ہے تو ان کی اپنی دنیا اور اپنے لوگ ہیں جو ان جیسے ہی ہوں گے ۔

لوگوں کا اعتراض ہے کہ جو لوگ اپنے دستر خوان کی تصاویر شئیر کرتے ہیں وہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ۔ یہ سوچ ، یہ رویہ احساس کمتری کے شکار افراد کا تو سکتا ہے ۔ پڑھے لکھے سلجھے ہوئے لوگ اس کلچر اور رویے سے کوسوں دور ہیں ۔دیکھیں لوگوں نے فوڈ چینل بنائے، فوڈیز کے پیچ ہیں ،گروپس ہیں۔فوڈ بلاگ اور وی لاگ ہم دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں ۔ ہم نے پاکستان اور پاکستان سے باہر کے ممالک کو ان کے فوڈی کلچر کی بنیاد پر جانا ، سمجھا اور ہمیں اچھا لگا۔ پاکستان میں فوڈ بلاگر کی مدد سے ہمیں پاکستان کے دوردراز کے شہروں کے بارے میں معلومات ملیں،کھانوں کے بارے میں پتہ چلا ۔ ہم نے پاکستان کے فوڈ اور ٹورازم ڈویلپمنٹ کو فوڈ بلاگنگ کی مدد سے سمجھا ۔ حتیٰ کہ ان فوڈیز گروپوں کی مدد سے ہم نے گھر بیٹھے اپنے ہی شہر کے بہترین اور سستے فوڈ اسٹال اور ہوم میڈ دستر خوانوں تک رسائی حاصل کی۔ہم نے کم آمدنی اور محدود بجٹ کے ساتھ مزیدار ڈشیز بنانی سیکھیں ۔ کئی خواتین نے آن لائن فوڈ سروسز فراہم کر کے اپنے لیے معاشی آسودگی حاصل کی ۔

سوشل میڈیا کا مطلب سوشل لائف ہے اور سوشل لائف میں ہر قسم کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ تاہم اگر آپ اپنے جیسے لوگوں کے اردگرد رہیں گے تو آپ خوش رہیں گے لیکن جب آپ اپنے طے شدہ معیار اور نظریات سے ہٹ کر لوگوں کی پوسٹ پر جائیں گے تو وہ آپ کو زہنی اور نفسیاتی مریض لگیں گے اور یہاں پر مجھے یہ کہنا ہے کہ قصور لوگوں کا نہیں آپ کی اپنی نفسیات کا ہے کیونکہ رشک کر حسد نہ کر۔ کوئی اچھا کھا رہا ہے ، پہن رہا ہے ، گھوم پھر رہا ہے اور سوشل میڈیا پر شئیر کر رہا ہے تو آپ کو وہ نفسیاتی مریض لگتا ہے یعنی کہ آپ کا ایمان اتنا کمزور ہے کہ آپ کسی کو اچھا کھاتے پیتے ، پہنتے ہوئے دیکھ کر ہرٹ ہو رہے ہیں ۔۔ تو پھر آپ خود کو اس کمپنی سے دور کریں ، اپنی دنیا الگ بسائیں۔ لوگوں کو جینے دیں ، ان کے طرز زندگی سے اختلاف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ایک آپ لوگوں نے گھسنا بھی انہی لوگوں کے درمیان میں ہے دوسرے ہمہ وقت تنقید بھی انہی پر کرنی ہے ۔خود کو بدلیں دنیا اچھی لگنے لگی گی ورنہ دقیانوسی خیالات اور تصورات کے ساتھ آپ جلتے کڑھتے ہی رہیں گے اور یونہی کسی دن دنیا سے گزر جائیں گے ۔

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

ملیحہ سید
ملیحہ سید
ملیحہ سید سینئر صحافی و کالم نگارہ ہیں . انگریزی کے موقر قومی روزنامے میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں . شاعری ، افسانہ نگاری تراجم سمیت ادب و صحافت کے دیگر شعبوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں . ملیحہ سید اب ""دی جرنلسٹ ٹوڈے"" کے لیے مستقل بنیادوں پر لکھ رہی ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

ویکسین: علاج یا سازش؟...

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے...

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت کا دوسرا رُخ

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین اور اب کینسر سے بچاؤ...

پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی عہد! "خطے میں طاقت کا نیا توازن”

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر ملک پاکستان کے وزیر اعظم...

فصلیں جب دریا میں بہہ گئیں

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے میری چھ ماہ کی محنت...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر ڈاکٹر نکلے گی۔وہ باتوں پر...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت...

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین...

پاکستان اور سعودی عرب کا...

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر...

فصلیں جب دریا میں بہہ...

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر ڈاکٹر نکلے گی۔وہ باتوں پر...

شادی کا گھر یاماتم گھر

خیبر پختونخواہ کے حسین پہاڑوں کے بیچ واقع ضلع بونیر میں ایک شادی کا گھر اچانک ماتم کدہ بن گیا۔ ڈھول کی تھاپ، خوشی...

ٹرولنگ،فیک نیوز اورسوشل میڈیا اینگزائٹی ڈس آرڈر ۔۔۔۔ ایک خاندان کیسے بکھرتا ہے؟

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی عزت، وقار اور ساکھ صرف ایک لمحے کی سوشل میڈیا پوسٹ پر منحصر ہو...

ناں۔سر… ادیب

اسے گاؤں کا بابا بہت اچھا لگتاتھا وہ اکثر اس ڈبہ نما سنیما گھر کی ایک ہی فلم کو گندم کے دانوں کے عوض...

دو پاکستانی فِنٹیک اسٹارٹ اپس کو عالمی شناخت

پاکستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے لیے یہ وقت خوشی اور فخر کا ہے کہ عالمی جریدے Forbes Asia نے اپنی مشہور فہرست...

موسمیاتی خطرات اور جنوبی یورپ کی جنگلاتی آگ!

موسمیاتی خطرات اور جنوبی یورپ کی جنگلاتی آگ — ایک عالمی انتباہ جنوبی یورپ اس وقت ایک شدید ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے، جہاں جنگلاتی...