اپنے وی لاگ کی تیاری کرتے ہوئے میری نظر ٹی وی پر نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی خبر پر پڑی۔ ان کا بیان چل رہا تھا کہ بجلی کے بل وہاں جلائے جارہے ہیں جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں محلے کی ایک خاتون جو اپنے گھر کا گزر بسر لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارہ کرتی ہے وہ کسی کام سے گھر آئی۔ ٹی وی پر خبر کی تفصیلات چل رہی تھی کہ نگران وزیر اعظم کہتے ہیں کہ بجلی اور مہنگائی کا اتنا مسلہ نہیں ہے جتنا اسے پیش کیا جارہا تھا ۔ خاتون نے نہ سمجھنے والے انداز میں مجھ سے کہا کہ بی بی جی آپ سے کام تھا اس لئے آئی تھی۔ یہ بڑے وزیر اعظم صاحب کیا کہہ رہے ہیں تو میں نے اسے خبر کی تفصیلات بتائیں کہ وزیر اعظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ بجلی کے بل دینے ہوں گے اور اس میں ہم کوئی ریلیف نہیں دے سکتے ۔ یہ ماضی میں کئے گئے فیصلوں کا نتجہ ہے۔
یہ سن کر خاتون بولی کہ بی بی جی آپ تو صحافی ہے، آپ کی بات بڑے وزیر اعظم صاحب تک بھی پہنچتی ہے۔ میرا خط بھی وزیر اعظم صاحب کو پہنچا دیں۔ میں نے پوچھا خط کہاں ہے؟
خاتون بولی کہ اسی سلسلے میں آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ خط لکھیں اور وزیر اعظم صاحب تک پہنچا دیں ۔۔میں نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیں نگران وزیر اعظم صاحب کے پاس کہاں اتنا وقت ہوگا کہ تمہارا خط پڑھ سکیں۔یہ ان کے اختیار میں نہیں ہے۔
خاتون بولی وزیر اعظم تو بڑے وزیر اعظم ہیں ۔۔آپ لکھ لیں اور کسی طرح ان تک میری بات پہنچائیں۔۔ خاتون کی ضد کے آگے مجبور ہو کر میں نے لکھنا شروع کیا۔
جناب بڑے وزیر اعظم صاحب ۔۔
میں چور نہیں ہوں ۔ میں نے کبھی بجلی کی چوری نہیں کی۔اپنے بچوں اور گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لئے میں اور میرا شوہر صبح چھ بجے سے رات کے آٹھ بجے تک لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔موجودہ حالات میں ہم لوگ اتنے لاغر ہوچکے ہیں کہ بجلی چوری تو کیا اپنے گھر میں بجلی کا بٹن تک آن نہیں کر سکتے۔گھر میں ایک وقت کھانا پکتا ہے۔بجلی کا بل اتنا آیا ہے کہ ایک پنکھا چلانے پر بارہ ہزار روپے کا بل ۔۔ بارہ ہزار میں اور میرا شوہر مل کے بھی جو کماتے ہیں اس کے بعد بل جمع کرائیں گے تو کرایہ اور کھانے کے کچھ نہیں بچتا۔پچھلے سارے بل جمع کئے ہیں۔ جہاں کام کرتی ہوں وہاں میں پورا وقت دیتی ہوں میرا شوہر بھی یہی کرتا ہے۔ کل مالک مکان نے آکر بتایا کہ بجلی کا بل جمع کرو نہیں تو میٹر کاٹ کے لے جائیں گے۔ ابھی بڑے وزیر اعظم صاب بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم چوری کرتے ہیں۔ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ بجلی کا میٹر ہمارا والا کون سا ہے بس بجلی کا بل آتا ہے ادا کرتے ہیں ۔
بڑے وزیر اعظم صاحب۔۔ دکان میں کھانے پینے کی اشیا بھی اتنی مہنگی ہوئیں ہیں کہ کم سے کم مقدار میں چیزیں خریدتے ہیں اس پر بھی ساری رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ دکاندار سے پوچھا تو اس نے کہا ٹیکس لگتا ہے۔ میں تو لوگوں کے گھروں میں کام کرکے پیسے کماتی ہوں سرکاری نوکری نہیں ہے پھر بھی مجھ سے ٹیکس لیتا ہے میں دکاندار سے کہا بھی اس نے بہت غصہ کیا اور اگلی دفعہ کسی اور جگہ جانے کا کہا ۔
جہاں کام کررہی ہوں وہ میڈم صاحبہ بھی اچھی ہیں ۔آج وہ بھی پریشان تھی۔ میں نے پوچھا تو کہا کہ نسیراں شاید اگلے مہینے تمہیں کام پر نہ بلا سکوں ۔میرا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ میڈم جی سے پوچھا تو کہنے لگی کہ نسیراں اب میں خود ہی کام کروں گی تمہاری تنخواہ کے پیسے نہیں بچتے، بچوں کی فیس ،گھر کا خرچہ،اسپتال کا علاج اور ادویات اور بجلی گیس کے بل۔ایسے میں تمہیں ادا کرنے کے پیسے نہیں بچتے ۔ مجھے تو جیسے دنیا تنگ پڑ گئی۔ اب اس طرح مجھے کام نہ ملا تو میں اور میرے گھر والے زندہ کیسے رہیں گے۔میری چھوٹی بیٹی دو سال کی ہے۔دودھ مانگ رہی تھی، دودھ کے پیسے نہیں تھے میرے پاس کل کے بچے تھوڑے سے دودھ میں بہت سارا پانی ڈال کے اسے دے دیا۔شائد اسے ذائقے کا اندازہ ہوا ایک لمحے کو اس نے میری طرف دیکھا، میں نے منہ چھپایا ۔وہ پھر سے پینے لگ گئی شائد بھوک بہت تھی یا اس ننھی جان کو بھی پتہ چل گیا کہ جینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔۔
بڑے وزیر اعظم صاحب آپ تو بڑے وزیر اعظم ہیں آپ ان مہنگائی کرنے والوں کو کہیئے نا کہ مہنگائی کم کریں۔ ہم نے کوئی چوری نہیں کی نہ کبھی چوری کا سوچتے ہیں۔۔
اللہ آپ کو اس سے بھی بڑا وزیر اعظم بنائے۔
نسیراں مائی
اس کا خط لکھتے ہوئے مجھے معلوم ہی نہیں پڑا کہ میرے کتنے آنسو نکلے ہیں۔جب نسیراں نے مجھے ٹیشو بڑھایا تو پتہ چلا ۔ نسیراں اس مشکل میں بھی مسکرا کر بولی کوئی نہیں بی بی جی اچھا وقت آئے گا ۔ یہ کہتے ہی ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔بڑی مشکل سے اسے سنبھالا۔چائے پلائی ۔تو نسیراں نے عجیب فرمائش کی۔ بولی بی بی جی آپ کے آبائی علاقے میں کیا اب بھی غلام ہوتے ہیں ؟ میں نے اس کے اچانک سوال پر حیران ہوکر اس سے پوچھا کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
کہنے لگی ہمیں آپ وہاں اپنا غلام بنالیں۔ بس دو وقت کا کھانا دے دیں اور چھوٹی چھت دے دیں جو چاہے کام کروالیں ہم کر لیں گے۔ یہاں اب گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ خدا کے واسطے بی بی جی ہمیں غلام بنا کر رکھ لیں۔۔
اس کی بات سن کر میں سکتے میں آگئی سوچنے لگی کیسا وقت آیا ہے کہ لوگ غلام بننے کے لئے درخواست کررہے ہیں۔۔جبکہ غلام بننا تو ایک طعنہ ہے اگر کوئی غلام ہو بھی تو صاف کہتا ہے کہ ہم غلام نہیں ۔۔
اس کا خط لکھتے ہوئے مجھے معلوم ہی نہیں پڑا کہ میرے کتنے آنسو نکلے ہیں۔جب نسیراں نے مجھے ٹیشو بڑھایا تو پتہ چلا ۔ نسیراں اس مشکل میں بھی مسکرا کر بولی کوئی نہیں بی بی جی اچھا وقت آئے گا ۔ یہ کہتے ہی ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی۔بڑی مشکل سے اسے سنبھالا۔چائے پلائی ۔تو نسیراں نے عجیب فرمائش کی۔ بولی بی بی جی آپ کے آبائی علاقے میں کیا اب بھی غلام ہوتے ہیں ؟ میں نے اس کے اچانک سوال پر حیران ہوکر اس سے پوچھا کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
کہنے لگی ہمیں آپ وہاں اپنا غلام بنالیں۔ بس دو وقت کا کھانا دے دیں اور چھوٹی سے چھت دے دیں جو چاہے کام کروالیں ہم کرلیں گے۔ یہاں اب گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ خدا کے واسطے بی بی جی ہمیں غلام بنا کر رکھ لیں۔۔
اس کی بات سن کر میں سکتے میں آگئی سوچنے لگی کیسا وقت آیا ہے کہ لوگ غلام بننے کے لئے درخواست کررہے ہیں۔۔جبکہ غلام بننا تو ایک طعنہ ہے اگر کوئی غلام ہو بھی تو صاف کہتا ہے کہ ہم غلام نہیں