ہم نے سیاست میں برینڈ، سیلیبریٹی اورگڈ لکس دیکھ لئے اور انکی حکومت کرنے کی صلاحیت بھی، اسی چیز کو اگر آگے لے کر چلیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست میں برینڈز، سیلیبریٹیز اور گڈ لکس کے ساتھ ساتھ سیاسی بصرت کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
2013 سے لے کر2024 کے الیکشن تک اور پوسٹ الیکشن ہونے والی پریس کانفرنسسز اور پریس ریلیزز اس بات کی گواہ ہیں کے ہم نے اپنے ملک میں ماسوائے ذاتی عناد اور لڑائی جھگڑے کے کچھ بھی نہیں سیکھا، لڑائی جھگڑا اگر اصولوں پر ہو تو سیاست کا حسن بڑھ جاتا ہے لیکن اگر یہ ذاتی عناد کی شکل اختیار کر لے تو پھر حالات بلوے اور ہنگاموں کے ساتھ ساتھ قتل و غارت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے ایک سیاست دان دیگران کو مسلسل نشانہ دشنام رکھنتے تھے اور اس وقت انکا نشانہ سب سے زیادہ مریم نواز ہوتی تھی اور انکے مقلدین اپنے لیڈر کی سنت کو زندہ رکھنے اور ثواب کی نیت سے گالم گلوچ کا بازار گرم رکھتے تھے۔
اس مہاماری کے دور میں احقر نے لکھا تھا کے مریم نواز کی سیاست میں انٹری عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر بالکل نہیں ہے بلکہ یہ تو پی ٹی آئی کی بلاوجہ کی جارحیت کا ردعمل ہے کے ہم مریم نواز کو بطور ایک سیاسی لیڈر دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یعنی یہ حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ ہے، اسی بات کو آگے لے جاتے ہوئے جب ملک میں 2018 کے الیکشنز ہوئے تو میں نے اپنا ڈر ظاہر کیا کے اگر "ن” لیگ جیت گئی تو مریم نواز اپنا اور اپنے والد کا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے جو کے ملک کی سیاست اور ملک کی سالمیت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے الحمداللہ ایسا نا ہوا لیکن اب2024 کے الیکشنز کے نتائج کے بعد حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کے ہم نا چاہتے ہوئے بھی مریم نواز کو بطور وزیر اعلی پنجاب دیکھیں گے۔
اگر ان معروضی حالات کو ایک جانب رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں بینظیر بھٹو ابتک کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم رہیں تو دوسری جانب مریم نواز پہلی خاتون وزیر اعلی ہوں گئیں۔
جہاں تک بالا ذکر حالات و واقعات ہیں اس کے مطابق غصہ و کینہ میں مریم نواز اور عمران نیازی ہم پلہ نظر آتے ہیں کیونکہ ان دونوں کی سیاست ایکدوسرے کے خلاف بیانات اور لفاظ کے ہتھیاروں سے حملہ آور ہی ہونا تھا اور مریم نواز کو ایک دکھ اپنے والد کا بھی ہے جو کے وہ گاہے گاہے اپنی تقاریر میں اس بات کا اظہار بھی کرتی رہی ہیں کے انکے والد کے ساتھ ظلم کیا گیا اور اس ظلم کی وجہ وہ عمران نیازی کو گردانتی ہیں جبکہ اس بات کی حقانیت پر عمران نیازی صاحب نے اپنی تقاریر و بیانات سے مہر بھی ثبت کی ۔
ان تمامتر عوامل کو دیکھتے ہوئے طالبعلم تو گھبرا رہا ہے کے جیسے کے پی کے میں ایک ہارڈ کور لڑاکے کو وزیر اعلی نامزد کیا جا رہا ہے ویسے ہی اسکا فیمیل ورژن پنجاب میں اپنے پر پھیلانے کو تیار ہے۔
بقول استاذی حیدر جاوید سید اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ہمیں ہمیشہ حسن زن سے کام لینا چایئے اس لیے طالبعلم اس بات کا بھی شیدائی ہے کے اسکے تمامتر تحفظات غلط ثابت ہوں اور مریم نواز ایک بہترین وزیر اعلی کے طور پر سامنے آئیں کیونکہ انکی سپورٹ میں انکے والد نواز شریف، چچا شہباز شریف اور بھائی حمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ دیگر تجربہ کار سیاست دانوں کا بھی ساتھ ہو گا۔
جبکہ دوسری جانب گنڈا پور صاحب کے بابت بھی میرا خیال ہے کہ وہ اب ذمہ داریوں کو سمجھیں، ہیٹ اسپیچ اور بیلو دا بیلٹ بیانات سے پرہیز کرتے ہوئے صوبہ کے پی کے کو فنانشلی اپنے پاوں پر کھڑا کریں اور گزشتہ دس سال سے گھاٹے میں جانے والے صوبے کو حقیقی طور پر عمران نیازی صاحب کے ویژن کے مطابق ایک فلاحی ریاست کے طور پر سامنے لائیں۔
ملکی سیاست میں نئی صف بندی .. فائٹر قیادت فرنٹ لائن پرآ گئی ؟
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔