ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور برادر ملک پاکستان کے وزیر اعظم کے طیارے کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہوائی سلیوٹ پیش کیا۔ پاکستانی طیارے میں ایک طرف پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، جن کے لبوں پر ایک ہلکی سی، رسمی مسکراہٹ تھی، اور دوسری طرف پاکستان کے طاقتور آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر سنجیدہ چہرے کے ساتھ موجود تھے.
نصف صدی تک پاکستان ریاض کی سایہ دار ڈھال رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں فوجی تربیت دینے والے پہنچے؛ 1982 تک ایک پروٹوکول نے سعودی عرب میں ایک ڈویژن پاکستانی فوج کو تعینات کیا۔1990 میں جب صدام نے کویت پر حملہ کیاتو اسلام آباد نے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے ہزاروں مزید دستے بھیجے۔
سعودی شہزادوں نے تب وہ سوچا جو ان کے لیے آئیڈیل تھا: جب سعودی خودمختاری خطرے میں ہوگی تو پاکستانی فوجی مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لیے جان لڑا دیں گے۔ ایک ریٹائرڈ سعودی کرنل نے یاد کیا”پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والوں کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، مستعار تھے لیکن قابلِ اعتماد تھے۔”
یہ معاہدہ اب کیوں؟ کیونکہ ستمبر2025 کا ریاض پرانے سہاروں پر مزید تکیہ کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی سعودی سیکیورٹی معاہدہ امریکی کانگریس کی بھول بھلیوں میں اٹکا ہوا ہے جبکہ غزہ کی جنگ اور دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملوں نے امریکی ضمانتوں کا بھرم توڑ دیا ہے۔ جیسا کہ ایک سابق سی آئی اے تجزیہ کار نے کہا، "سعودیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنا سارا وزن ایک ہی پلڑے میں نہیں ڈالیں گے۔” ریاض نے حال ہی میں اربوں ڈالر کے تیل کی ادائیگیوں کو مؤخر کیا ہے اور مزید اربوں کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی۔ اسلام آباد کے لیے یہ معاہدہ زندگی کی سانس ہے، اور ریاض کے لیے تزویراتی گہرائی ہے. ”
ریاض کے لیے بیلنس شیٹ واضح ہے: پاکستان دباؤ کے باوجود کام کرتا ہے۔ اس کے افسر تربیت دیتے ہیں، اس کے فوجی تعینات ہوتے ہیں، اس کے فوجی جان مارتے ہیں۔
دہلی اس تمام صورتحال کو شدید بے چینی سے دیکھ رہا ہے۔ مئی 2025 کے بحران نے یہ زخم تازہ کر دیے ہیں کہ چھوٹی جھڑپیں کتنی تیزی سے ایک بڑے تصادم میں بدل سکتی ہیں۔ ایک سعودی پاکستانی دفاعی معاہدہ بھارتی منصوبہ سازوں کے لیے بھیانک خوابوں کو جنم دیتا ہے پاکستانی افواج خلیجی سرزمین کو استعمال کرے گی پاکستان اپنی ایٹمی طاقت سے سعودیہ کو مزید مضبوط کرے گا۔وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو یوں سرعام گلے لگانا، شاہ فیصل کے پاکستان کی جانب واضح اقدام ہے۔
ایک سابق امریکی سفیر کے بقول: "سعودیوں کو میزائل نہیں چاہئیں، انہیں یقین چاہیے .اگر کسی ملک نے سعودیہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اگر بات حد سے بڑھی تو پاکستان ایک حفاظتی چھتری فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ اسی بات کی یقین دہانی ہے۔
مجموعی طور پریہ معاہدہ خلیج کے سیکیورٹی نقشے کو از سر نو ترتیب دیتا ہے: سعودی تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی، پاکستانی افواج کی خطے میں وسیع تر تعیناتی، ڈرون اور گولہ بارود کی مشترکہ پیداوار، اور بحیرہ عرب و بحیرہ احمر میں مشترکہ بحری گشت۔ یہ سب کچھ مل کر ایک نیا دفاعی بلاک تشکیل دیتا ہے۔ اور پاکستان کو خطے کی ایٹمی طاقت کی کرسی پر بٹھاتا ہے جو سب سے خوش آئند بات ہے.
اس دفاعی معاہدے کے اثرات بھی گہرے ہیں۔ بھارت اسے پاکستان کی جارحیت کے لیے ایک کھلی چھوٹ سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان کی یہ نئی اٹھان کافی حد تک آپریشن سندور کو آپریشن تندور میں بدلنے کی وجہ سے ہے. اس وقت پاکستان مضبوط ملک کے طور پر سامنے آیا ہے ۔جو کہ بھارت کے لیے ڈراونا خواب ہے. پاکستانی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو دیے جانا والا پروٹوکول صدر ٹرمپ کی ٹکر کا ہے اور اس سے خطے میں بہت سے لوگوں کی نیند حرام ہوگی.
پاکستان کی حکومت اور پاک فوج نے ہمیشہ ملک و قوم کی سلامتی، ترقی اور استحکام کو اولین ترجیح دی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ یہ تاریخی معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری قیادت نہ صرف اندرونی چیلنجز پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک مضبوط، بااعتماد اور ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھارنے کا عزم بھی رکھتی ہے۔ آج جب دنیا نئے اتحاد اور نئے توازن کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان کی حکومت اور پاک فوج مل کر ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس میں وطن عزیز کو نہ صرف معاشی خوشحالی بلکہ علاقائی اور عالمی سلامتی میں کلیدی کردار حاصل ہوگا۔ یہی اصل میں پاکستان کا وہ تابناک چہرہ ہے جس پر پوری قوم کو فخر ہے
پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی عہد! "خطے میں طاقت کا نیا توازن”
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔