پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت جتنا مرضی اچھا سوچ لیں ، اچھا کر لیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کی ڈیورنڈ لائن کے اس پار ہمارے لیے کسی قسم کے نرم اور دوستانہ جذبات موجود نہیں ہیں ۔ میں نے تو جب سے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا ہے ، دوسری طرف سے کبھی بھی پاکستان کے لیے اچھی باتیں نہ سنی اور نہ ہی دیکھیں ۔ہمہ وقت کوئی نہ کوئی افسوسناک صورتحال ہماری منتظر رہتی ہے ۔ ماضی کی طرف سفر کریں تو ڈیونڈر لائن کی حقیقت کے مطابق تقسیم ہند سے پیشتر جب یہاں برطانیہ حکمران تھا، تو لارڈز کو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ شمال مغربی سرحد پر روس کا اقتدار نہ بڑھ جائے یا خود افغانستان کی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ کے اندر گڑبڑ پیدا نہ کروا دے۔ یعنی کہ اففانستان کے حوالے سے اندیشے انگریزی دور میں بھی موجود تھے ۔
ان اندیشیوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر ہی وائسرائے ہند نے والی افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ماٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا۔ جس کے بدلے برطانیہ کی حکومت نے امیر عبدالرحمن خان کو انعامات سے بھی نوازا اور سرحد کا تعین کر دیا گیا۔ جو ڈیورنڈ لائن (Durand Line) یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اور افغانستان استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل ،کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے معاہدہ کے مطابق دستبردار ہو گیا۔ تاہم ڈیونڈر لائن دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع لیکر بن گئی جسے بعد والی افغان حکومتوں نے مزید تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان میں موجود اپنے ہمدردوں کی مدد سے پختونستان کا شوشہ پیدا کیا اور اسے پروان چڑھایا گیا۔
اب اگست 1947 کے بعد کی تاریخ دیکھی جائے تو بھی افغانستان اور پاکستان کے آپسی تعلقات خوشگوار نہیں رہے ، دونوں ممالک کسی نے کسی معاملے پر ہمیشہ سینگ آزمائی میں مصروف رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق ستر کی دھائی تک اگر متنازعہ ڈیورینڈ لائن اور پختونستان کا مسئلہ تھا تو 1978 کے بعد سے افغانستان میں سرخ انقلاب کا ردِ عمل دونوں ممالک کے لئے مسائل کا سبب بنا رہا ۔ بات یہیں سے مزید بگڑی کیونکہ جب کمیونسٹ انقلاب کی بساط لپٹ دی گئی تو مجاہدین کے مختلف دھڑوں اور پاکستانی مفادات کے مابین رسہ کشی شدت سے ابھر کر سامنے آگئی۔ جس کا شکار مظلوم پاکستانی ہوئے اور تاحال ہو رہے ہیں ۔
حتیٰ کہ جب افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا تو بھی طالبان کی متنازعہ داخلی پالیسیاں قندھار حکومت اور اسلام آباد کے درمیان وقتاً فوقتاً کشیدگی کا سبب بنتی رہیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ افغانستان میں کبھی بھی طالبان سے زیادہ پاکستان نواز حکومت سامنے نہیں آئی لیکن پاکستان اس حکومت سے بھی ڈیورنڈ لائن کی افادیت تسلیم کرانے میں ناکام رہا۔ پھر طالبان کے زوال کے بعد جو امریکہ نواز حکومت آئی اسے بھی پاکستان سے وہی شکائیتیں رہیں جو سوویت نواز افغان حکومتوں کو تھیں۔ افغانستان میں سویت یونین کی یلغار کے بعد پاکستان نے ایک بڑے بھائی کے طور پر اپنی سرحدوں کے دروازے متاثرین جنگ کے لیے کھول دئیے تھے اور انہیں اپنی زمین پر پر پناہ دی۔بات پناہ تک رہتی تو ٹھیک تھا مگر صد افسوس انہیں یہاں پر پینپنے اور پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا، جس نے جہاں پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ سماجی ڈھانچے کو بھی اپنی جکڑ میں لے لیا ۔ ان احسان فراموشوں نے پاکستان میں منشیات اور اسلحہ کلچر کو خوب پروان چڑھایا ۔ 1980 کے بعد کی نسلوں کو جو پاکستان ملا اس کی زمہ دار اس وقت کی حکومتوں کی وہ افغان پالیساں تھیں جنہوں نے ایک پر امن سماج کو متشدد اور انتہا پسند معاشرے میں بدل کر رکھ دیا۔ پہلے صرف سرحدیں غیر محفوظ تھیں اس کے بعد سرحدوں کے اندر سے بھی فتنوں نے سر اٹھایا، جنہیں آج تک قابو نہیں کیا جا سکا۔
اب کچھ لوگ یہ موقف اختیار کریں گے کہ ماضی کی لیکر پیٹنے سے کیا فایدہ ؟؟؟ تو صاحب جو آجکل ہو رہا ہے اس کی جڑیں بھی تو ماضی سے جڑی ہیں۔ پاکستان میں افغان کالونیاں بن چکی ہیں۔ اچھی خاصی جائیدادیں خریدی جا چکی ہیں ، پاکستان میں رہ کر پھل پھولنے والے یہ مہاجرین عام پاکستانیوں سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں ، اداروں کے لالچ افسروں نے انہیں پاکستان کی شہریت دے کر پاکستان کا شہری بنا دیا، پناہ گزین بن کر آئے تھے مالک بن بیٹھے اور بجائے کہ اس زمین اور اس کے لوگوں کے شکر گزار ہوتے الٹا انہی کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہو گئے ۔ پاکستان میں اس وقت چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں سے اکثریت جعل سازی کر کے پاکستانی شہریت حاصل کر چکی ہے حالانکہ انہیں محدود نقل و حرکت اور کام کاج کے لیے این او سی حاصل ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان جیسی ریاستیں جہاں سب چلتا ہے جیسا نظریہ عام ہو وہاں یہ نہ صرف چلا بلکہ خوب دوڑا بھی ، جو اب پاکستان کی بقاء میں زہر بن کر سرایت کر چکا ہے ۔
اب آتے ہیں آجکل کی موجودہ صورتحال کی طرف تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی انتہائی خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی ایک اہم ترین وجہ افغانستان کو بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ افغان طالبان جب برسرِ اقتدار آئے تو وہ پاکستانی جو ان کے لیے نرم جذبات رکھتے تھے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ان کے خیال میں شاید اب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آ جائے گی۔ اس لیے یہ سمجھا گیا کہ شاید افغان طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو وہاں کی عوام کے ساتھ ساتھ باڈر پر بھی مشکلات کم ہو جائیں گی اور یہ سب مل کر خطے میں بہتری کے لیے کام کریں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات مثالی ہوجائیں گے اور پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوجائے گی اور وہاں سے دہشتگردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند ہو جائے گا مگر یہ محض خام خیالی تھی جو کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ یہ احسان فراموش قوم ہے جس نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا ۔ یہ سب چند ناعاقبت اندیش یوٹیوبروں اور تجزیہ نگاروں کی خواہشات تھیں جس کا مقصد اپنا مفادات کی تکمیل تھا جب کہ حقیقت یہی ہے کہ افغانی کسی بھی مقام پر کھڑے ہوں پاکستان اور پاکستانیوں کے دوست نہیں ہو سکتے ۔
یاد رکھئیے کہ افغانستان صنعتی ملک بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہاں پر کوئی ایسی خاص پیداوار ہے جو افغانیوں کی کمائی کا ذریعہ بن سکے، اس کے لیے ضروری تھا کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت ہو لیکن دنیا کے کسی ملک نے بھی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک کسی ملک کے ساتھ کھل کر تجارت کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان ابھی تک افغانستان کے معاشی حالات پر قابو نہیں پا سکے ۔ مگر اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سے آٹا ، چینی، اناج کی اسمگلنگ انتہائی عروج پکڑ گئی جس نے پاکستان کے معاشی مسائل کو فروغ دے دیا۔ سویلین انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں 8 ارب روپے کی مالیت کی چیزیں افغانستان اور ایران سرحد پر پکڑی گئیں۔
سرکاری رپورٹ میں کیے گئے انکشاف کے مطابق اگست کے مہینے میں یومیہ28 کروڑ کی اشیائے ضروریہ افغانستان اسمگل ہونے سے روکی گئیں، ایک ماہ میں3 ارب سے زائد مالیت کی600 گاڑیاں کسٹم حکام نے سرحد پر پکڑیں۔ کسٹم حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے تقریبا 3کروڑ لٹر پٹرول اور ڈیزل ماہانہ اسمگل ہورہا ہے، ایران بارڈر پر ایک ماہ میں 11 لاکھ لیٹر پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پکڑی گئی۔اعداد و شمار کے مطابق56کروڑ روپے کے مہنگے موبائل فون بھی پکڑے گئے، 22کروڑ روپے مالیت کی ایفڈرین کی کھیپ بھی پکڑی گئی، 55کروڑ روپ مالیت کے کپڑے کی اسمگلنگ بھی پکڑی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے2 ماہ میں چینی کے 25لاکھ تھیلے افغانستان اسمگل ہوئے، پچھلے ایک ماہ میں چینی کے 18 لاکھ تھیلے افغان بارڈر پر پکڑے گئے۔ اعداد وشمار کے مطابق اسمگلرز نے چینی اسمگلنگ سے2 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔
ذہن نشین کر لیں کہ ڈیونڈر لائن کے دوسری طرف سے پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردانہ حملے، کراس بارڈر دراندازی، سمگلنگ، منشیات کی ترسیل، غیر قانونی آمدورفت جیسے معاملات شامل ہیں۔ جن پر قابو پائے بغیر پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اپنے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ پاک افغان بارڈر مکمل سیل ہوجانے کے بعد ان مسائل میں کمی آئی، باڈر سے ہٹ کر بھی پاکستان بھر میں آپریشن کیے گئے لیکن ان مسائل کے مکمل خاتمے کے لیے قندھار حکومت اور اس کے شہریوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں آزاد اور خودمختار ممالک ایک دوسرے کے بارڈرز، روایات اور سب سے بڑھ کر سفارتی اخلاقی و آداب کی پاسداری یقینی بناتے ہیں، جس کے لیے دونوں طرف سے ہی پاک افغان بارڈر مینجمنٹ بہت زیادہ ضروری ہے ۔