14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی ایک کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے ہو سکتے ہیں جبکہ اب تک کم از کم 298 افراد کی لاشیں مل سکی ہیں۔ باقی 568 افراد سمندر نے نگل لیے ہیں اور حکام کے مطابق ان کے ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یعنی ان کے لواحقین ان کے مرے ہوئے منہ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔یونانی احکام کے مطابق جس جگہ کشتی ڈوبی ہے وہاں سمندر انتہائی گہرا ہے۔ جبکہ بچائے جانے والے 104 افراد میں سے 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔
یونان نے اسے تاریخ کے بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔
جب سے یہ حادثہ ہوا ہے تب سے ہی سوشل میڈیا پر حکومت کو لے کر تنقید کی جا رہی ہے اور حسب ضرورت تمام تر ملبہ ریاست پر ڈال کر والدین اور اولاد کے لالچ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے اور محدود آمدنی میں عزت اور خاموشی سے گزارا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ لوگوں میں جنم لینے والی خود نمائی نے بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اگر خاندان میں کوئی باہر ہے اور اس کے گھر میں خوشحالی ہے تو پھر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا لڑکا بھی باہر چلا جائے اور ہم بھی شوق سے یورپ میں لی گئی سلفیوں کو دکھا کر دیگر رشتے داروں کو ساڑنے کا موقع فراہم کریں۔
میرے خیال میں ان معاملات میں حکومت پر بلاوجہ کی تنقید انتہائی غلط روش ہے کیونکہ ہمارے جیسے ممالک میں حکومت ، جمہوریت اور سیاست صرف اور صرف مخصوص طبقے کا کاروباری تحفظ کا ایک سلسلہ ہے اور کچھ بھی نہیں اور عوام کی حیثیت الیکشن میں رونق میلے اور ووٹر اسٹمپ کے سوا کچھ نہیں ۔ آج تک کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے علاقائی سطح پر نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دی ہو۔ تکنیکی تعلیمی سرگرمیوں پر فوکس کیا ہو۔ یہ کام ہم نے خود کرناہے اور اہم ترین نکتہ جسے ان موقعوں پر یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جنہوں نے ایجنٹس کو لاکھوں روپے دیے اتنے پیسوں میں تو وہ پاکستان میں بھی کوئی چھوٹا موٹا سٹ اپ بنا کر اچھا بھلا کما سکتے تھے۔ اس حوالے سے کورسز موجود ہیں جو کہ محدود کم سرمایہ سے شروع کیے جا سکتے ہیں ۔لاہور کی ایک خاتون نے پچاس ہزار سے گھر کی پرانی میز کو تیار کر کے اپنا فوڈ اسٹال شروع کیا تھا ۔ الحمد للّٰہ اچھی گزر بسر ہو رہی ہے ۔
اِدھر اُدھر سے مانگ تانگ کر باہر جانے کی منصوبہ بندی تو یہ سب آسانی سے کر لیتے ہیں مگر اپنے ہی ملک میں قانونی طور پر قرضہ لیکر چھوٹا موٹا کام کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ اختلافات کے باوجود مجھے یہ تسلیم کرنے اور لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مائیکروفنانسنگ کا ادارہ اخوت اس وقت کاروبار کیلئے کم از کم 30 ہزار روپے قرضہ دے رہا ہے اور ساتھ 60 ایسے بزنس آئیڈیاز بھی دیتا ہے جو 30 ہزار سے شروع ہو سکتے ہیں۔ اسی موضوع پر شہباز حفیظ اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ
"ساری بات بندے کی لگن، سیکھنے کے جذبے اور پرسنیلٹی ڈیویلوپمنٹ کی ہے۔ کیا آپ کے سامنے سینکڑوں ایسی مثالیں موجود نہیں ہیں کہ ٹھیلے سے کاروبار شروع کرنے والے آج اپنی بلڈنگز میں ہوٹل چلا رہے ہیں؟ کیا آپ نے اپنے ہی علاقے میں وہ لوگ نہیں دیکھے جنہوں نے پھٹے پر کام شروع کیا اور چند سالوں بعد بھری ہوئی دکان لے کر بیٹھے ہیں؟ یہ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اس وقت کئی نام ہیں جنہوں نے لوڈر سے سامان اتارنے، پوچہ لگانے اور مکینک جیسے کاموں سے آغاز کیا اور اس وقت اپنی کمپنیز چلا رہے ہیں۔ ہماری مارکیٹ کی حالت تو یہ ہے کہ 5 کروڑ بندہ گھروں میں بیٹھ کر بے روزگاری کا ماتم کر رہا ہے لیکن کوئی بزنس مین ہوٹل کھول لے تو تندور پر روٹیاں لگانے والا بندہ نہیں مل سکتا۔ داروغہ والا کا چکر لگائیں تو ہر فیکٹری کی باہر اشتہار لگے ہیں کہ ورکرز اور کاریگروں کی ضرورت ہے۔اگر آپ نے ہڈ حرامی کا سٹیکر اپنے سینے پر لگا لیا ہے تو پھر سوشل میڈیا پر "روٹی بندہ کھا جاندی اے” والے بین نہ کریں۔ کام ہی راستہ ہے، مشکل ہی راستہ ہے۔ کمفرٹ زون کو تین طلاقیں دیں اور زندگی کا آغاز کریں۔ قبر میں جانے سے قبل اپنے اعضاء و خواص کا استعمال کریں۔ خون جگر دینے پر آمادہ ہوں گے تو فن کی دولت ملے گی اور آپ کی ڈیمانڈ کے مطابق آپ کو معاوضہ بھی ملے گا۔ آپ کا اپنا علامہ اقبال سمجھاتے ہوئے گیا کہ فن کے معجزے کی نمود ہمیشہ خُونِ جگر سے ہوتی ہے۔ ”
اسی لیے صاحب اٹھیں عزم کریں، کام کریں اور چھا جائیں۔