1991 میں ملتان یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ ہوا ۔ نعیم بھائی بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں آئی سرجن تھے۔ میں ملتان سے ہر ویک اینڈ پر بہاولپور ان کے پاس جاتا اور ایک دو دن گزار کر واپس یونیورسٹی ہوسٹل لوٹ آتا تھا۔ داخلے بعد گیا تو مجھ سے پوچھنے لگے یار تمہارے کورس/سلیبس میں کون کون سی بکس ہیں۔ میں نے انہیں نام بتائے۔ ڈرامہ، شاعری، ناول، تنقید سب پیپرز اور سلیبس۔
بات آئی گئی ہوگئی۔
اگلے ہفتے گیا ڈاکٹرز ہوسٹل عباس منزل ( کمرہ نمبر 19) میں وہ سب میرے کورس کی کتابیں بیڈ پر رکھے لیٹ کر پڑھ رہے تھے۔ میں نے کہا سرکار یہ کیا ہورہا ہے۔ کہنے لگے سب خرید لایا ہوں۔ آج کل پڑھ رہا ہوں۔ تم ویک اینڈ پر آتے ہو تو دو تین گھنٹے ان پر تم سے بحث ہوگی۔ تمہاری تیاری اس طرح کرا دوں گا۔ اور پھر اگلے دو سال جتنا ایم اے انگلش میں نے کیا اتنا انہوں نے کیا۔ فرق یہ تھا کہ مجھے ڈگری مل گئی ۔ وہ اس میں نہال ہوگئے کہ بھائی ماسٹرز کر گیا۔
ایک دن کسی دوست نے انہیں طعنہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب باتیں تو لٹریچر پر بہت سنی ہیں آپ سے۔ آپ کا اردو ادب سے کیا لینا دینا۔ آپ نے کون سا اردو میں ماسٹرز کیا ہوا ہے کہ آپ کی بات کو توجہ دی جائے یا اہمیت۔ آپ میڈیکل ڈاکٹر ہیں وہی رہیں۔ ہنس کر بولے اچھا یہ بات ہے۔
اگلے دن گئے بازار سے سارا اردو ماسٹرز کا کورس لائے۔ یونیورسٹی میں پرائیویٹ اسٹوڈنٹ طور پر داخلہ بھیج دیا۔ اور پھر یونیورسٹی کے سالانہ امتحان میں اردو میں ٹاپ کیا اور ڈگری دوست کو جا کر دے دی لالہ سنبھال کر رکھنا۔
برسوں بعد ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب کے دفتر گیا تو انہیں ایم اے انگلش کی کورس کتابوں میں غرق پایا۔ نوٹس بنا رہے تھے۔
میں نے کہا سر جی خیریت۔ بولے بھائی جان یار فریحہ ( بیٹی) کا داخلہ ہوا ہے۔ صاف ظاہر ہے اب پڑھنا تو مجھے ہے۔ مجھے ہی اس کے کلاس نوٹس اور assignments بنانے ہیں۔ وہ تو سہیلوں ساتھ سیر سپاٹے اور گپیں لگا رہی ہے۔
میں حیران ہوتا تھا کہ یہ کون لوگ ہوتے ہیں جو یہ سب کام کرتے ہیں کہ بچے نے داخلہ لیا تو ساتھ خود پڑھائی شروع کر دی۔
اس سوال کا جواب اب جا کر عمر کے اس حصے میں ملا ہے جب عنایہ بہت اسٹریس میں تھی کہ اس کی کلاس سیون کے سالانہ امتحان ہورہے ہیں۔ رو رو کر برا حال تھا۔ اس کی آخری پناہ گاہ میں ہوتا ہوں۔ وہ میری باس ہے۔
اس کی ماں نے دھمکی دے رکھی ہے ( جیسے سب پڑھی لکھی مائوں کا یہ اب وطیرہ ہے) کہ گریڈ نہ آئے تو پھر دیکھنا۔
آج کل میں بھی وہی کام کررہا ہوں جو کبھی نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفر الطاف کرتے تھے۔
روز میں کلاس سیون کا ایک پیپر/سیبلس پڑھتا ہوں۔ ان کے پوائنٹس بناتا ہوں۔ اس کو پھر وائس نوٹس بنا کر واٹس ایپ کرتا ہوں۔ پھر وہ گھر آتی ہے تو اس کے ساتھ تیاری کراتا ہوں۔
میری بیوی نے کہا عنایہ ایک کام کرو انہیں بھی اپنے ساتھ او لیول میں داخلہ کرا دو۔ کلاس فیلو بن جائو۔ یہ ٹاٹ سکول کے پڑھے ہوئے ہیں۔ میٹرک کیا ہوا ہے۔ یوں یہ بھی انگلش میڈیم پڑھ لیں گے، اے لیول کی ڈگری لے کر کچھ خود کو پڑھا لکھا محسوس کریں گے۔
عنایہ کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا ہے۔ وہ روز پیپر کی میرے ساتھ تیاری کرتی ہے اور میرے ساتھ پلاننگ کرتی ہے کہ اس نے میرا داخلہ او لیول میں کیسے کرا کے مجھے اپنا کلاس فیلو بنانا ہے جو اس کا سارا ہوم ورک کیا کرے گا اور اس کی امتحانوں کی تیاری بھی کرائے گا۔
ویسے یقین کریں دل تو میرا بھی مچل گیا ہے کہ عنایہ کا او لیول میں کلاس فیلو بن جائوں۔
جب سینئراینکر روف کلاسرا کی بیگم اور بیٹی نے انہیں او لیول کروانے کا فیصلہ کیا. .
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔