تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار پاکستان نے آخر آئی ایم ایف کے ساتھ 3 بلین ڈالر (2.4 بلین پاؤنڈ) کی فنڈنگ سے متعلق عملے کی سطح پر معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ واضح رہے کہ یہ معاہدہ، جسے اب بھی عالمی قرض دہندہ کے بورڈ سے منظور ہونا باقی ہے، آٹھ ماہ کی تاخیر کے بعد سامنے آیا ہے۔
اس معاہدے کو محفوظ بنانے کی خاطر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پیر کے روز اپنی بنیادی شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح تک بڑھا دیا ہے۔ ملکی معیشت، جو پہلے ہی کئی دہائیوں سے جاری مالی بدانتظامی کے خلاد اپنی لولی لنگڑی جدوجہد کر رہی تھی، عالمی سطح پر توانائی کے بحران اور کررونا وائرس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال ملک میں آنے والے سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے کہا کہ "معیشت کو کئی بیرونی جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسے کہ 2022 میں تباہ کن سیلاب جس نے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور یوکرین میں روس کی جنگ کے نتیجے میں اشیاء کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ”۔ اس کے علاؤہ انہوں نے مزید کہا کہ ان عالمی اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ ملکی پالیسیوں کی غلطیوں کے نتیجے میں بھی اقتصادی ترقی کا عمل نا صرف رک گیا بلکہ عام آدمی مزید مشکلات کا شکار ہو گیا۔”
واضح رہے کہ اس طرح کی معاہدے عملے کی سطح پر اتفاق ہو جانے کے بعد عام طور پر IMF کے ایگزیکٹو بورڈ کے ذریعے منظور کیے جاتے ہیں۔ توقع ہے کہ بورڈ آنے والے ہفتوں میں معاہدے پر غور کرے گا۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ ڈیل پاکستان کو معاشی سانس لینے کے لیے بہتر آکسیجن فراہم کرنے کا باعث بنے گی جس کی اسے ان دنوں سخت ضرورت ہے۔دوسری جانب اسوقت پاکستان کو بڑے پیمانے پر توانائی کے بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے بڑے مالز کو جلد بند کرنا حکومتی مجبوری اور ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال مئی میں پاکستان کی سالانہ افراط زر کی شرح تقریباً 38 فیصد کی تازہ ترین بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اسی وجہ سے 3 بلین ڈالر کی فنڈنگ، جو نو ماہ میں مکمل ہو گی، توقع سے زیادہ ہے جبکہ پیکج کی ڈیل فائنل ہوتے ہی بہتر نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں میں بہتری کی خبریں واضح ہیں کہ پیکج سے بحران ٹل گیا ہے ۔
یاد رہے کہ پاکستان 2019 میں طے پانے والے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج میں سے بقیہ 2.5 بلین ڈالر کے اجراء کا انتظار کر رہا تھا، جس کی میعاد جمعہ کو ختم ہو گئی تھی ۔تاہم یہ بات یاد رکھئیے کہ کم غیر ملکی ذخائر کے ساتھ اعلی افراط زر اور میکرو اکنامک استحکام کی کمی پر قابو پانے میں وقت لگتا ہے اور مالیاتی نظم و ضبط برقرار رہتا ہے۔
25 کروڑ سے زیادہ آبادی پر مشتمل ملک اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ تاہم سیاست دانوں اور جرنیلوں کے اقتدار کے لالچ نے ملک کو ترقی سے کوسوں دور کر دیا ہے ۔ اسی وجہ سے اس سال ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح تک گر گئے جو تین ہفتوں سے بھی کم درآمدات پر محیط تھا۔جبجی سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جان لیوا جھڑپوں نے مالیاتی منڈیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا ۔واضح رہے کہ مئی میں، عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد سے ملک کی سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ تاہم اس دوران ہونے والی چھڑپوں نے ملکی وقار اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
جبکہ گزشتہ برس پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، دنیا بھر کے عطیہ دہندگان نے 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بحالی میں مدد کے لیے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا جو تاحال نہیں مل سکے اور ملک ایک بار پھر طوفانی بارشوں اور سیلاب کے متوقع خطرے کی زد میں ہے جبکہ گزشتہ تباہی سے بحالی کے لیے 16 بلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ہم اس بیل آؤٹ پیکج کی نفی نہیں کر رہے یقین یہ گرتی ہوئی ملکی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا تاہم جب تک یہ ثمرات عام شہری تک نہیں پہنچتے، ہر چیز بے فائدہ ہے ۔