میں ساتویں جماعت میں تھی جب مجھے پیریڈز آنا شروع ہوئے۔ میں چونکہ ٹام بوائے ٹائپ قسم کی لڑکی تھی جس کے پسندیدہ مشاغل میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا، درختوں اور دیواروں پر چڑھنا اور چھلانگیں لگانا شامل تھا، اس کے لیے یہ سب ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میں سوسائٹی کے دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہی تھی تو حیض کا خون آنا شروع ہو گیا۔ ایک نامعلوم سی گڑبڑ کا احساس ہونے پر میں ڈر کر گھر کی طرف بھاگی تو اماں حضور سے پہلا آرڈر ہی یہ ملا کہ کسی کو بتانا نہیں ہے۔ کیوں؟ میں جو کہ بچپن سے ہی اماں سے زیادہ ابا کے قریب تھی اس لیے یہ حکم انتہائی گراں گزرا پر مرتے کیا نہ کرتے کے مترادف بحث کرنے اور پھر ڈانٹ کھانے کے بعد یہ عظیم الشان راز خود تک ہی محدود رکھا۔
بات یہاں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ حکم ثانی جو صادر ہوا ، وہ یہ تھا کہ سکول میں بھی کسی کو نہیں بتانا اور ہم اسی ناپاکی کی حالت میں دو دن ناظرہ کلاس میں بیٹھے اور جب ذہن کھلا تو پتا چلا اس حالت میں تو نماز معاف ہے اور قرآن کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے یہ جاننے کے بعد ہمارے کئی ماہ خود سے شرمندہ شرمندہ گزرے اور اماں سے بات کرنے پر خاموشی کا سامنا کرنا پڑتا، وہ مجھے کسی سوال کا جواب نہیں دیتی تھیں ، استاد میں بھی بات کرنے سے منع فرما دیا گیا تھا ورنہ وہیں سے کچھ گیان شیان لے لیتے ، تاکہ اندر کا کھوجی سکون سے تو بیٹھ جاتا۔
ہر ماہ ایک ہی مصیبت رہتی تھی۔ پیریڈز ہونا بھی عذاب تھا اور نہ ہونا بھی مسئلہ۔ خیر اسی شش و پنج میں آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب چھوٹی بہن کو پیریڈز شروع ہو گئے وہ کئی خیالوں کو خود سے لپٹائے سارا دن روتی رہی۔ (کاش میں نے اسے پہلے سے بتا دیا ہوتا)۔
آج میں سوچتی ہوں کہ والدین اس کے بارے میں بچوں کو پہلے سے ہی آگاہ کیوں نہیں کرتے۔ جس ذہنی اور جسمانی کرب سے بچیوں حتیٰ کہ خواتین کو بھی گزرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کو خفیہ رکھنا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے کہ گھر میں موجود باپ، بھائی، یا بیٹے کو آپ کی اس کیفیت کا علم نہ ہو جائے۔ یا مرد حضرات کیا سوچیں گے (کیا پتا کچھ حساس لوگ سوچنے کی بجائے اپ کا خیال رکھنے کو ترجیح دیں)۔ بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ واضح شرعی حکام کے باوجود بعض اوقات خواتین کو پیریڈز کی حالت میں خود کو گھر کے مردوں کے سامنے روزہ دار ظاہر کرنے کے لیے بھوکا پیاسا بھی رہنا پڑتا ہے۔
کہیں انہیں روزہ نہ ہونے کے باوجود روزے کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے تو کہیں باقی بہن بھائی تنگ کرنے سے باز نہیں آتے اور یہی نہیں بلکہ بعض اوقات پیریڈز کے چڑچڑاپن اور ڈپریشن سے والد اور گھر کے بڑوں سے بھی باتیں سننی پڑتی ہیں جن میں سے کچھ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ لڑکی کس کرب سے گزر رہی ہے۔ اور کچھ پتا ہونے کے باوجود بھی انجان بن جاتے ہیں۔ بات ماں باپ کے گھر تک محدود نہیں رہتی بلکہ سسرال اور دفاتر میں بھی لوگ پیریڈز پر بات کرنا بدتہذیبی سمجھتے ہیں اور ساتھی کولیگز کی اموشنل ہیلپ کی بجائے کچھ جاہل صفت مرد انہیں demoralize کرتے ہیں اور گاہے بگاہے ایسے بیانات دیتے سنے جاتے ہیں کہ لڑکیوں کو اسی لیے نوکری نہیں کرنی چاہئیے۔ یہ آفس ہی کیوں آتی ہیں گھر رہ کر ڈرامے کیا کریں وغیرہ وغیرہ۔
دراصل اس میں ماں باپ کا خصوصاً ماؤں کا بہت زیادہ قصور ہے جو لڑکیوں اور لڑکوں کو اس بارے میں آگاہ نہیں کرتیں ساتھ ہی ساتھ ہمارا تعلیمی نظام بھی زمہ دار وار ہے جس میں فیزیکل اور مینٹل ہیلتھ پر فوکس نہیں کیا جاتا اور نہ یہ ایجوکیشن دی جاتی ہے اور نہ ہی ڈیل کرنا سیکھایا جاتا ہے حالانکہ یہ شرم کا مقام نہیں ہے بلکہ قدرتی عمل ہے جس کی طبی وجوہات بھی بہت واضح ہیں۔ مگر ہم نے اسے شرم کے پردے میں پوشیدہ کر کے اس سے وابستہ مسائل کو ہسٹریا یا جنوں کے سایہ سے باندھ دیا ہے ۔
دیکھیں بیٹے قدرتی ظور پر ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں تو مائیں بہت اچھے سے انہیں پیریڈز اور اس دوران خواتین کی ذہنی اور جسمانی حالت کے بارے میں آگاہی دے سکتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خواتین کا خیال رکھنے اور ان کو پیمپیر کرنے کے طریقے سکھا سکتی ہیں۔ وہ بچوں کو بتا سکتی ہیں کہ پیریڈز کے ساتھ ذہنی اور جسمانی تناؤ نیچرل ہے اور عورت ان دنوں میں زیادہ حساس ہو جاتی ہے اور ایکسٹرا کئیر اور انڈرسٹینڈنگ چاہتی ہے اور پیریڈز کوئی taboo نہیں ہے۔ اس کی ٹریننگ گھر میں ہی بھائیوں کو بہن کا خیال رکھنے کا کہہ کر شروع کی جا سکتی ہے۔
آخر میں ایک قصہ سناتی چلوں، ایک دوست بتاتی ہے کہ اس کے ٹراؤزر اور قمیص پر خون کا دھبہ لگا تو اسکی والدہ نے فوراً اسے انڈر وئیر اور ایک موٹا کپڑا پکڑا دیا۔ (ہمارے وقت میں کپڑا پی چلتا تھا سینیٹری نیپکنز یا پیڈز کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔) ساتھ ہی اسے بھی نصیحت کی گئی کہ کسی کو نہیں بتانا اور ابو کو تو بالکل ہی نہیں بتانا اور نہ قرآن کریم کو چھونا ہے اور نماز پڑھنی ہے۔اگلی صبح قرآن کلاس میں استانی صاحبہ کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ ڈاکٹر نے منع کیا ہے کہ قرآن کریم کو نہیں چھونا اور ساری کلاس یہ سن کر ہنسنے لگ گئی۔ کلاس سے باہر آئی تو کپڑا باہر گر گیا جس سے اس نے فوراً جوتے صاف کرنا شروع کر دیے اور خجالت مٹانے کی کوشش میں اور زیادہ مذاق کا نشانہ بنی۔
ہوسکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو یہ سب مضحکہ خیز لگے پر جس کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کے لیے وہ موقع اور نازک ہو جاتا ہے اور پیریڈز میں ذہنی کرب اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک طرف لڑکیوں کو پیریڈز کے بارے میں آگاہ نہ کرنا اور اس کو چھپانا ان کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے تو دوسری جانب لڑکوں کو بھی صحیح عمر میں اس کے بارے میں آگاہ نہ کرنا بچیوں کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ سماج میں بہتری اسی وقت آئے گی جس ہم ڈسکس کرنے والے معاملات کو ڈسکس کریں گے تاکہ ملک کے 51 فیصد آبادی کو بہتر بنیادوں پر ذہنی تحفظ فراہم کیا جا سکے ۔
(ایڈیٹر نوٹ : حفصہ امان نے انتہائی بولڈ مگر اہم موضوع پر لکھا ہے. ہمارے معاشرے میں عموما ایسے موضوعات پر لکھنا”بےشرمی” سمجھا جاتا ہے لیکن اسی "بےشرمی” کی وجہ سے بچیوں کو بے شمار مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.جنس کے مسائل خواتین کے ہوں یا مردوں کے لیکن سچ یہی ہے کہ انہیں اوپن سیکریٹ بنانے کی وجہ سے بہت سے بچے غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں کیونکہ جن اہم باتوں کو والدین چھپاتے ہیں وہی "راز”جنسی درندوں کا جال بنتی ہیں .اگر آپ اس کے حق یا مخالفت میں اپنی رائے دینا چاہیں تو ادارہ پالیسی کے مطابق اسے بھی شائع کرے گا)