تندئی باد مخالف سے نا گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
صادق سیالکوٹی کا یہ شعر ایک ایسا جامع اور مختصر تبصرہ ہے ان لوگوں کی خاطر جن میں کچھ کرنے کی چاہ ہے، جو اپنی زندگی کو اپنی شرطوں پہ جینے کے خوایاں اور عادی ہوتے ہیں۔۔۔زمانہ یا سماج بلا شریک_غیرے بالواسطہ طور پر ہر دوسرے انسان کی راہ کا روڑہ بننا پسند کرتا ہے، مگر جو شہسوار ہوتے ہیں ان میں پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کی جستجو بھی ہوتی ہے اور عمل بھی۔ فی زمانہ دو لفظ بہت مشہور ہیں یا پھر عام ہیں جن میں سے ایک Contravorcy اور دوسرا Trolling. یہ دونوں پتھر ازمنہ حالیہ میں سوشل میڈیا کی دوڑ کے بہت جامد رویے ہیں۔
Contravorcy جو چاہتے ہیں وہ خود کو مشہور کروانے کی غرض سے ہر سطح پھلانگ جاتے ہیں، اور ان contravort کے بین بین trollars ہوتے ہیں جو ان کا تمسخر اڑانے، ہراساں کرنے اور تنگ کرنے کے در پے ہوتے ہیں (یہ باتیں سوشل میڈیا کے رویوں پہ محیط ہیں، اگرچہ روزمرہ کے معمول میں بھی نمایاں کارگر ہوتی ہیں)۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر تو کوئی اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہے اور اپنی خواہش پر کسی کی خواہش کو مقدم نہیں سمجھتا اور اس کے کسی بھی عمل سے سماج یا افراد کو کوئی مالی، نفسیاتی اور جانی نقصان نہیں ہو رہا تو اس کا بنیادی انسانی حق ہے وہ جیسے چاہے جئیے، سماج کو اس کا ٹھیکیدار بننے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم یعنی سماج میں جو انفرادی اور ذاتی نالائقیاں ہیں پہلے ہمیں ان کو درست کرنا چاہیے، سماج سدھار مہم اس کے بعد ہوتی ہے۔ اب وہ اس بندے یا بندی کے اعمال ہیں کہ وہ جو کھانا پسند کرے، جو پہنے، جہاں جائے، کسی سے تعلق رکھے یا نا رکھے، یہ سب اس کا ذاتی اور بنیادی حق ہے۔ جبکہ دوسری جانب سماج سدھارو سیوک رام جن کو ہم ٹرولر کہیں وہ صاحبان بنیادی طور پر کوے کا سا مزاج رکھتے ہیں، جیسے کوا برتن دھونے والا صابن یا کوئی بھی چیز اٹھا کر چلا جاتا ہے اور پھر اس خاتون کو چڑہاتا ہے جس نے برتن دھونے ہوتے ہیں، لیکن کوے میاں نے تو بلا وجہ لوگوں کو تنگ کرنا ہوتا ہے، حالانکہ وہ نہ صابن کو کھاتا ہے نہ ہی اس کو نہانے کے کام آتا ہے صابن سے۔ تو یہ ہمارے ٹرولر حضرات اس انسان کو Contravorcy کے لبادے میں اوڑھ کر ٹرولنگ کی مالا جپتے رہتے ہیں، جبکہ contravort کو ایک ٹکے جتنا بھی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہ مضبوط اعصاب کی یا کا حامل انسان ہوتا ہے۔ ان ٹرولر کے لیے میرا کا ایک مصرع یاد آ گیا کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نا دوا نے کام کیا
تو صاحبان علم و ادب ہمیں کسی کو بھی اس کے ذاتی فعل (جس سے سماج کی پاک دامنی پہ کوئی چھینٹے نہیں اڑتے) پہ برا بھلا کہنے سے گریز کر کے پہلے اپنے اندر جھانک لینا چاہیے۔ علاوہ ازیں contravort کو بھی چاہیے کہ اس کا عمل سماج یا فرد کی دل آزاری، تکلیف یا کسی بھی قسم کے نقصان سے مبرا ہونا چاہیے۔ ساری کہانی ہے نفسیات کی، جو سمجھ گیا وہ پا گیا، جسے مل بھی جائے اور سمجھ نا ہو تو وہ زمیں جنبد با جنبد گل محمد کے مصداق ہی جی رہا ہے اور بس۔ کسی لڑکی کا پیٹ نظر آجائے، کسی کا کھلا گریبان ، کسی کے بغل کا سبز خط یا پھر جسم کا کوئی اور حصہ، سوچنا یہ ہے کہ یہ سب ان کو گھر میں بھی نظر آ سکتا ہے۔۔ لہذا اپنے سفلی و جذباتی احساسات کو کسی خاص کے لیے محدود رکھیں، ورنہ اعضا اور جسم سب خواتین کا یکساں ہی ہوتا ہے، آپ کے گھر میں بھی وہی ہے جو بازار میں جاتی کسی اجنبی لڑکی میں نظر آتا ہے .۔۔۔ معذرت ایسے سخت الفاظ کے لیے۔۔
خوش رہیے، مزے سے رہیے، دوسروں کی زندگی کی بجائے خود کی زندگی کو انجوائے کیجئیے۔
وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ۔
(ایڈیٹر نوٹ : وجدان راؤ نے انتہائی سلگتا موضوع چھیڑا ہے . ہم اور آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ہمارے موجودہ دور خصوصا نوجوانوں سے متعلق ایک اہم موضوع ہے . ہم یقین رکھتے ہیں کہ مکالمہ اور ڈائیلاگ ہی سوچ کی نئی راہوں کو ہموار کرتے ہیں . اگر آپ اس موضوع کے حق یا مخالفت میں دلائل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیں تو ادارہ پالیسی کے مطابق اسے بھی شائع کرے گا)
سوشل میڈیا پر ٹرولر کی حیثیت ؟
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔