ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کو اس وقت سنگین نوعیت کے مالی مسائل کا سامنا ہے اور حکومت مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے بلکہ آپ غور کریں تو احساس ہو گا کہ مجموعی طور پر حکومت عوام کر کوئی بھی ریلیف مکمل نہیں دے پا رہی ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے تو اس سے قبل ہی بجلی، آٹا ، چینی اور گھی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیتی ہے ۔حال ہی میں حکومت نے اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تو وہیں بجلی کی قیمت میں یک مشت پانچ روپے کا اضافہ کر دیا۔ میں پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ ن لیگ نے یہ حکومت لے کر اپنی سیاسی زندگی کا سب سے زیادہ حساس فیصلہ لیا ہے جو ان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ معاشی ریلیف عوام تک نہیں پہنچ رہا بلکہ عوام پر مسلسل مہنگی بجلی ، پانی ، پیٹرول اور ضرورت اشیائے خوردونوش کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں خودکشی کی شرح میں اضافے کی خبریں عام ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد 100 یونٹس اوراس سے ذائد بجلی استعمال کرنے والے صارف کا بل حسب زیل آئیگا۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کا بنیادی ٹیرف 24 روپے 82 سےبڑھا کر29 روپے78 پیسے مقرر کردیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیکس اور سلیبس کے ساتھ اوسطاً فی یونٹ قیمت 50 روپے تک پہنچ جائے گی۔ جس کے تحت ماہانہ 100 یونٹ کا ٹیرف 13.4 سے بڑھ کر 18.36 فی یونٹ ہو جائے گا ، 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارف کا بل 1836روپے ہو جائے گا جبکہ
ٹیکس کے ساتھ یہ بل 3750 روپے تک آئے گا ۔
ماہانہ 200 یونٹ کا ٹیرف 23.91روپے فی یونٹ، بل 3700 سےبڑھ 4700 روپےہوجائےگا اور ٹیكسز کے ساتھ یہ 7000 روپے آئے گا ۔اسی طرح ماہانہ 300 یونٹ کے استعمال پر بل 6 ہزار سے بڑھ کر 8 ہزار روپےتک پہنچ جائے گا اور ٹیکس لگ کر یہ 11500 روپے ہو جائے گا جبکہ 400 یونٹ استعمال کرنیوالے صارف کا بل 10 ہزار سے بڑھ کر 12300 روپے ہو جائے گا۔ ٹیكسز کے ساتھ 20000 اور 500 یونٹ کے استعمال پر بجلی کا بل 13 ہزار سے بڑھ کر 16 ہزار تک جا پہنچے گا مع ٹیکس یہ بل 29000 تک پہنچ جائے گا ۔اسی طرح بجلی صارفین پر 3.23 روپے فی یونٹ ایف سی سرچارج عائد کر دیا گیا ہے اور ماہانہ 700 یونٹ استعمال کرنے والے کا بل 24 ہزار سے بڑھ کر 28 ہزار ہو جائے گا اور ٹیکس شامل کریں تو یہ بل 42000 روپے ہو جائے گا جبکہ ٹیکسز، سرچارجز ، کیپسٹی پیمنٹ اور ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ بل میں الگ شامل ہوں گے۔
بجلی کے ناقابل برداشت بلوں نے تاجروں اور عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا جبکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے تجارتی و صنعتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔دوسری جانب مہنگی بجلی کے باوجود گھنٹوں لوڈشیڈنگ نے کاروبار تباہ کر دیے ہیں اور عوام میں بھی چڑچڑا پن بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔ حکومت نے ساری توجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ پر لگا دیا ہے اور
ٹرانسمشن لائنز ، لائن لاسز اور بجلی چوری روکنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی عوامی سطح پر ان معاملات پر توجہ دینے کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے ۔ عوام بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تو بلبلا اٹھی ہے تاہم حکومت پر متبادل ذرائع تلاش کرنے پر زور نہیں دی رہی اور نہ ہی ان عیاشیوں کو روکنے کا مطالبہ کر رہی ہے جس کی قیمت غریب عوام کی جیب سے وصول کی جاتی ہے ۔ صرف سوشل میڈیا پر سرسری طور پر احتجاج ہو رہا ہے مگر اس میں وہ شدت نہیں ہے جو حکومت کو یہ ظالمانہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکے ۔
پیارے قارئین صرف آپ کے اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اشرافیہ کو سالانہ 34 کروڑ سے زائد مفت بجلی کے یونٹس دئیے جا رہے ہیں اگر ملک میں ایک لاکھ 89 ھزار اشرافیہ کو مفت بجلی کی فراہمی بند کی جائے تو اس سے غریب عوام پر پڑنے والا باجھ ختم ہو جائے گا اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی تاہم مجھے یقین ہے کہ حکومت چاہیے پپلز پارٹی کی ہو، ن لیگ کی ہو یا پھر عمران خان یا جہانگیر ترین کی ، کوئی سیاسی جماعت بھی ایسا کرنے کی جرات نہیں کرے گی۔آپ کے علم میں مزید اضافہ کرتا چلوں کہ بجلی کی قیمت بڑھانے کے بعد سنگل فیز میٹر کی قیمت بھی 4000 سے 7400 تک کر دی گئی ہے جںکہ تھری فیز میٹر کی قیمت 15000 سے بڑھا کر 33500 کر دی گئی ہے جو کہ یقیناً موجودہ حکومت کا انتہائی ظالمانہ فیصلہ ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مہنگے بجلی کے معائدے ختم کیے جائیں اور بجلی کی قیمت میں اضافہ واپس لیا جائے دوسری صورت میں ، میں ملک کی تاجر برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ عوامی فلاح اور انڈسٹری اور کاروبار کے بقاء ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں تاکہ حکومت ایسے ظالمانہ اقدامات کو واپس لینے پر مجبور ہو جائے جس سے تمام طبقات معاشرہ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور آگے چل کر مزید متاثر ہوں گے جبکہ مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ خودکشی اور جرائم کے واقعات میں زیادہ شدت آئے گی کیونکہ جو افیورڈ کر سکتا ہے وہ یہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے جو نہیں کر سکتا وہ زہر کھا رہا ہے ۔