ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

پنجاب کا رابن ہڈ …جس کاجنازہ 17500 افراد نے پیسوں کے عوض پڑھا!

تاریخ کے اوراق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے برصغیر پاک و ہند پر حکومت کرنے والوں کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے۔ پنجاب جو 47ء کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین کے ساتھ ساتھ تمام قدرتی غذائی و معدنیات جیسی نعمتوں سے مالا مال صدیوں سے آباد خطہ آ رہا ہے۔ برٹش سرکار بھی اپنے ملک کو مالی ، معاشی مستحکم بنانے کے لیے پنجاب سے کسانوں کے خون پیسنے کی کمائی ، اناج ، معدنیات وغیرہ اور ٹیکسز کی مد جمع رقم دھڑ دھڑ بھیجوانے میں مصروف تھے۔ کسان سمیت ہر طبقہ انگریز سرکار کے دن بدن بڑھتے ظلم سے پریشان تھا ۔ دوسری طرف پنجاب کے بہادر سپوت مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر گوروں سے اپنے، اپنی عوام کے حقوق کے لیے بے دریغ لڑتے لڑتے پنجاب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگے۔ پنجاب کے انہیں آزادی کے مجاہدوں میں سے ایک نمایاں نام ہے "نظام لوہار”

کرم دین لوہار کا بیٹا نظام لوہار۔ نظام لوہار کے متعلق معروف مصنف محمد حنیف رامے اپنی کتاب ” پنجاب کا مقدمہ” میں لکھتے ہیں نظام 1835ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان پٹی تحصیل کے علاقے ترن تارن کے قریب پیدا ہوئے۔ ایک اور مصنف امجد ظفر علی اپنی کتاب ” قصور تاریخ کے آئینے میں” لکھتے ہیں نظام لوہار 1835ء میں پٹی تحصیل قصور کے علاقے میں پیدا ہوئے مزید مصنف امجد ظفر علی سے اسی حوالے سے جب میری بات ہوئی تو انہوں نے واضح کیا، پہلے پٹی قصور کا حصہ تھی ، 1947ء کے بعد ترن تارن کی تحصیل پٹی اب ترن تارن ڈسٹرکٹ جبکہ پہلے ترن تارن علاقہ امرتسر کا حصہ تھا اور قصور اس وقت لاہور ڈسٹرکٹ ڈسٹرکٹ کا حصہ تھا۔ پنجاب کا مقدمہ ، قصور تاریخ کے آئینے میں و دیگر پنجاب کی تاریخ پر مبنی کتب میں نظام لوہار کے متعلق تقریباً معلومات ایک ہی محفوظ ہیں۔

نظام لوہار کا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا ۔بوڑھی ماں لوگوں کے مختلف گھروں میں کام کاج کرکے نظام کو تعلیم دلا رہی تھی ۔گھر میں جوان بہن تھی، نظام سکول میں بڑھتے ہوئے بھی دوسروں سے الگ الگ رہتا تھا ۔ مگر اس کے ہم عصر اور ہم جماعت ہرگز نہ جانتے تھے کہ وہ کیا کچھ کر گزرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔
ارگرد کی کسان آبادیوں پر بھاری لگان اور بیگار ، پھر حکومت کے اہلکاروں کا مفلس کسانوں پرتشدد ۔ نظام اکثر اسی سوچ میں گم رہتا تھا کہ عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ کیا ہے ۔؟ سوچ ،سوچ کر وہ اس نتجہ پر پہنچا کہ ساری برائی کی جڑ انگریز کی غلامی ہے۔
جب نظام نے اپنی بھٹی میں پہلے لوہے کی برچھی ڈھالی اور پھر پستول بھی بنا لیا تو اسکی ماں نے اسے خوب برا بھلا کہا کہ اگر کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا ۔؟ وہ مسکرایا اور چھپ رہا ۔ اس کے اندر ایک نیا انسان جنم لے رہا تھا ۔ اسکے چہرے کی مسکراہٹ اسکے باغیانہ خیالات کا آئینہ بن گئی ۔ آہستہ آہستہ سارے سکول اور سارے گاؤں کو پتہ چل گیا کہ نظام کے پاس کون کون سے ہتھیار ہیں۔ کتاب” قصور تاریخ کے آئینے میں” اس وقت نظام کی عمر 13/14 سال تھی۔ خیر نظام اپنی سوچوں میں گم رات گے تک باہر رہا کرتا تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ قدرت اسکے جزبہ بغاوت جو پختہ کرنا چاہتی تھی ۔ کتاب ” قصور تاریخ کے آئینے میں” بہت سے مقامی لوگ،بشمول نظام نے 1860ء کی دہائی میں برطانوی سامراجی پیش قدمی کے خلاف دشمنی کا مظاہرہ کیا۔
ایک رات پولیس نے تحصیل پٹی کے ” ٹہے والے قبرستان” پر چھاپہ مارا مگر نظام اس سے اڈے کو چھوڑ کر موضع سوہلی کی طرف چل رہا دیا ۔ راستے میں اسکی ملاقات علاقے کے مشہور باغی سوجھا سنگھ کی ماں میتاں سے ہوئی۔ جو بین کرتی جارہی تھی ۔ نظام نے پوچھا ، تو میتاں نے بتایا کہ پولیس سوجھا سنگھ کو گرفتار کرکے لےگی ہے۔ نظام نے تسلی دی اور خود سوجھا سنگھ کو چھڑانے کے لیے "ٹبہ کمال چشتی” کی طرف چل دیا۔ پولیس سے مقابلہ کے بعد سوجھا سنگھ کو چھڑالیا ۔ سوجھا سنگھ کی ماں میتاں نے نظام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اسی کے پاس رہنے گا ۔ کتاب” قصور تاریخ کے آئینے میں” کے مطابق یہ وہی دور تھا جب نظام لوہار نے سوجھا سنگھ کے ساتھ ملکر پنجاب چھوڑو ( پنجاب چھڈو) تحریک کی برطانوی سامراج کے خلاف بنیادی رکھی ۔اس کے بعد نظام لوہار اور سوجھا سنگھ نے ملکر اوپر تلے انگریزوں کے چار اعلیٰ افسروں کو قتل کر دیا۔ وہ انگر یز حکومت کے لیے مصیبت بن گئے تھے۔

ادھر لاہور اور قصور کے درمیانی” علاقے ماجھے ” کے انقلابی جبرو کو نظام کے کارناموں کی خبر ہوئی تو وہ بھی آ کر نظام سے مل گیا۔ دونو نے نے انگریز کے خلاف منصوبہ بنایا اور علاقے بانٹ کر کسانوں کے ساتھ راتوں کو پھرنے لگے ۔ آخر فیصلہ ہوا میلوں اور عرسوں پر جاکر انگریز پولیس افسروں کو قتل کیا جائے۔ یہ کہہ کر قتل کیا جائے کے پنجاب سے جاؤ ( پنجاب چھڈو)۔ اسی سلسلے میں نظام ستلج پار بسنت کے میلے پر جا رہا تھا۔ کہ راستے میں اسے پیاس لگی ۔ اس نے میلے میں جاتی ہوئی ایک لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا ۔ لڑکی نے نظام کو لسی دی۔ نظام نے خوش ہوکر کچھ رقم دینی چاہی مگر لڑکی نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا یہ نظام لوہار کا علاقہ ہے ، یہ رقم میرے کس کام کی نہیں یہ تو وہ چھین لےگا ۔ اس پر نظام نے اپنا ظاہر کردیا اور کہا” پنجاب کی ہر لڑکی میری بہن” ہے۔ میں صرف انگریزوں کے خلاف ہوں اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاہتا ہوں۔ اس لڑکی کا نام موہنی تھا ۔وہ میلے میں نظام سے پھر ملی اور نظام نے اسکی کلائی پر راکھی باندھ دی۔ پھر اس نے بتایا کہ اسی ہفتے اس کی شادی ہے۔ نظام نے شادی پر آنے کا وعدہ کیا، مگر اسی میلے سے واپس جاتے ہوئے اس نے ایک اور انگریز انسپکٹر لوئیں کو قتل کردیا۔ اس سے سارے میلے میں بھگ دوڑ مچ گی۔ اس طرح نظام کا پیغام پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا،اور لوگ اسکے مقصد سے ہمدردی کرنے لگے۔

نظام نے چند ساہو کاروں کی حویلیوں پر ڈاکے ڈالے اور بہت سارا مال اکٹھا کیا اور شادی والے دن یہ سارا مال اپنی منہ بولی بہن موہنی کو دے آیا۔ اگرچہ اسے موہنی کے گاؤں سے فرار ہونے میں بڑی مشکل پیش آئی، مگر سوجھا سنگھ اور جبرو جیسے ساتھیوں نے نظام کی مدد کی اور وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

اب نظام لوہار پنجاب کی انگریز سرکار کے لیے طعنے سے بڑھ کر ایک خوف بن چُکا تھا ۔ ایس پی جان لیو نے نظام کو پیغام بھجوا کر اس سے بات چیت کرنی چاہی ۔ مگر اصل میں یہ اسے قتل کرنے کی سازش تھی۔ نظام نے اردگرد چھپے ہوئے سپاہیوں کو تاڑ لیا تھا چنانچہ وہ جان لیو کو اپنی گولی کا نشانہ بنا کر نکل آیا اور تین ماہ چھانگا مانگا کے جنگلوں میں جبرو کے پاس چھپا رہا۔

1877ء میں سوجھا سنگھ کی ماں میتاں کی بیماری کی خبر سن کر واپس آگیا ۔ اسی اثناء نظام کو معلوم ہوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں ” جٹاں دا کھوہ” کی ایک لڑکی چھیاما ماچھن سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے ۔ نظام کو یہ بات پسند نہ آئی ۔ اس نے چھیاما ماچھن کو بلا کر سخت ست کہا۔ نظام کا خیال تھا کہ عشق انسان کو بزدل بنادیتا ہے اور عشق کے چکر میں سوجھا سنگھ پولیس کے ہاتھ آسکتا ہے ۔ چھیاما ماچھن نے سوجھا سنگھ کے کان بھر دیے ( ایک معلومات یہ بھی ہیں کہ انگریز پولیس چھیاما ماچھن کو ایک منصوبہ کے تحت سوجھا سنگھ کے ساتھ لگایا تھا) سوجھا سنگھ نظام کے خلاف ہوگیا 10 ہزار روپے انعام اور 4 مربعے زمین پر اس کا دل مچلا گیا ۔چھیاما ماچھن نے سوجھا سے کہا تھا دیکھ قتل تو نظام کرتا ہے، مگر پھانسی ساتھ میں تجھے بھی ہو جائے گی ۔

سوجھا سنگھ نے تھانہ بھیڑیالہ میں اطلاع دی کہ نظام لوہار آج ہمارے گھر ہے اور کل کالے کھوہ واپس چلا جائے گا ۔ نظام لوہار جس کمرے میں سویا ہوا تھا دو گھنٹے کے اندر اندر پولیس پولیس نے گھیر ے میں لے لیا اور چند سپاہی کمرے کے اوپر چڑھ کر کمرے کی چھت توڑنے میں مصروف ہو گے۔ نظام کو پتا چل گیا۔ اسکی گھوڑی کمرے میں ہی بندھی ہوئی تھی۔ وہ فوراً سوار ہوا سر پر لوہے کا بنا ہوا تانبیہ اوڑھ لیا تاکہ گولیوں سے بچ سکے ۔ مگر اس طرح کچھ نظر نا آرہا تھا۔ اس نے گھوڑی کو بھگانے کے لیے سٹی ماری ، گھوڑی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی تو لوہے کا تانبیہ چوکھٹ سے ٹکرا گیا ، نظام بے ہوش ہو کر کمرے کے اندر گر پڑا ۔پھر کیا تھا پولیس 48 گھنٹے تک اس کمرے پر گولیاں برساتی رہی تیسرے دن نظام لوہار کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے قصور ہسپتال میں لایا گیا ۔ اس طرح ایک مجاہد پنجاب کے حقوق کی جنگ لڑتا لڑتا ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہوگیا۔ اپنے سورما کی لاش دیکھنے کے لیے دور دراز سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ قصور پہنچے۔ اس موقع برطانوی حکومت نے اعلان کردیا ۔ جو نظام لوہار کی نماز جنازہ میں شریک ہوگا اسے 2 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اس باوجود بھی لوگوں نے جوق در جوق نماز جنازہ پڑھی جس کے نتیجے میں 35000 روپے اکھٹے ہوئے جو آج تقریباً 35 لاکھ روپوں سے زائد بنتے ہیں۔ 17,500 افراد نے نماز جنازہ پڑھی۔ حاضرین نے نظام لوہار شہید کی قبر پر عقیدت اور احترام کے طور پر اس قدر چادریں چڑھائیں، پھول بکھیرے کہ اس کی قبر پر پھولوں کا ایک پہاڑ بن گیا پنجاب کے اس جوان مرد۔ مجاہد کی قبر قصور کے بڑے قبرستان میں موجود ہے ۔

جب میتاں کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹا سوجھا سنگھ نے نظام کی مخبری کی ہے۔ تو اس نے سوجھا سنگھ کو بلا کر جبرو کو گواہ بناتے ہوئے سامنے بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔
اور اسکی ماں نے بیٹے کی لاش پر کھڑے ہوکر کہا” تمہیں اپنی دھاریں نہیں بخشوں گی، کیونکہ نظام کی مخبری کرکے تم نے پنجاب کے ساتھ غداری کی ہے”

نظام لوہار شہید پر 1966ء میں” نظام لوہار ” ، 1979ء میں” نظام ڈاکو” ، اور ” نظام ” کے نام سے پاکستان میں ٹیلی ویژن فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

پاکستان میں انتخابات اوران کے نتائج کے اثرات

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت نہیں ملی۔پاکستان تحریک انصاف...

عطا تارڑ کی پیدائش ہیرا منڈی میں ہوئی … یہ کہانی کیا ہے ؟

سوشل میڈیا پر کسی بیانیہ کو سچ کیسے بنایا جاتا ہے ۔ تین دن پہلے ایک پلانٹڈ آرٹیکل لکھا گیا جس میں بتایا گیا کہ...

پاکستان کے لاپتہ نوجوان ووٹرز

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے لیکن دوسری جانب یہی نوجوان ملکی سیاست سے بدظن ہوتے...

پولیس کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کا رحجان اور کامیابیاں

پاکستان میں روایتی سماجی تصورات کے تحت خواتین پولیس ملازمت اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ خواتین کو اس شعبے کی طرف متوجہ کرنے کے...

نفاذ اردو والے بھی انگریزی کے دلدادہ ؟؟

آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی زبان اردو ہے اور اسی آرٹیکل میں لکھا ہوا ہے...