ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

پولیس کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کا رحجان اور کامیابیاں

پاکستان میں روایتی سماجی تصورات کے تحت خواتین پولیس ملازمت اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ خواتین کو اس شعبے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کام کے ماحول، معیار اور سہولتوں کا تجزیہ کر کے اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔بنیادی طور پر پاکستانی پولیس میں خواتین کی شمولیت کا آغاز سن 1970 کی دہائی سے ہونا شروع ہوا ۔ جبکہ سن 1861 کے پولیس ایکٹ اور سن 1934 کے پولیس قانون میں خواتین پولیس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا تاہم سال 2002 کے پولیس آرڈر میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت اور ان کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔بطور وزیرِ اعظم، بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کی حکومت نے پولیس میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں نہایت دلچسپی کا اظہار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک کے بعض شہروں میں وومن پولیس اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان میں خواتین کی ایک کثیر تعداد پولیس فورس ناصرف حصہ ہے بلکہ مکمل جانفشانی سے اپنے فرائض بھی انجام دے رہی ہے۔تاہم بھرتی، تربیت، کام کرنے کے ماحول، ترقی اور آپریشن میں ان کے کردار کے حوالے سے بدستور مسائل موجود ہیں، جنہیں اب منظم انداز میں حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 1668 کے قریب پولیس اٹیشنز موجود ہیں۔ ان میں سے صرف بارہ وومن پولیس اسٹیشنز ہیں، جن میں سے تین پنجاب، چھ سندھ، چھ خیبر پختونخواہ اور ایک اسلام آباد میں موجود ہیں تاہم زیادہ تر صرف حوالاتیوں کو رکھنے کی حد تک کام کر رہے ہیں۔قبائلی علاقوں پر مشتمل صوبے جیسے خیبر پختونخوا میں صورت حال مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سابقہ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر ریجنز میں تعینات 25 ہزار 879 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 29 خواتین اہلکار ہیں۔مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع خیبر میں تین، مہمند میں چھ، کرم میں 12، شمالی وزیر ستان میں سات اور جنوبی وزیرستان میں ۱یک، جبکہ باجوڑ اور اورکزئی سمیت چھ ایف آر ریجنز میں کوئی خاتون پولیس اہلکار موجود نہیں۔اس وقت ملک میں کم و بیش پندرہ سے بیس ہزار خواتین پولیس افسران و اہلکار موجود ہیں جو پولیس کی مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد ہے۔ تاہم یہ محدود تعداد سہی مگر خواتین افسران واہلکار پولیس فورس کا انتہائی اہم حصہ ہیں جنہیں بہترین تربیتی ماحول میں پولیسنگ کی جدید مہارتیں بشمول آئی ٹی سکلز، ویپن ہینڈلنگ، اینٹی رائٹ،ٹریفک قوانین اورکمیونٹی پولیسنگ سکھا کر مضبوط پروفیشنل آفیسر بنانا محکمہ کی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پولیس ٹریننگ کالج لاہور میں اس وقت2 ہزار کے قریب لیڈی افسران زیر تربیت ہیں جو اپنی تربیت مکمل کرکے اگلے چند مہینوں میں صوبے کے تمام اضلاع میں مختلف پوزیشنز پر اپنی خدمات سر انجام دیں گی۔دیگر شعبوں کی طرح مستقبل آئی ٹی بیسڈ پولیسنگ کا ہے اس لیے زیر تربیت لیڈی افسران کو آئی ٹی مہارتیں سیکھانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور انسٹرکٹرز ان افسران کو ویسے ہی گروم کرنے کے فرائض انجام دے رہے ہیں جیسے اے ایس پیز کو تربیت دی جاتی ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس وقت چوہنگ کالج میں صوبے کے 35اضلاع اورپنجاب ہائی وے پٹرول کی 1679لیڈی افسران زیر تربیت ہیں جنہیں تین سیمسٹرز اور 39ہفتے دورانئے پر مشتمل جدیدپیشہ ورانہ تربیتی کورس کروایا جا رہا ہے۔ ان لیڈی افسران کو دوران تربیت تعزیرات پاکستان، ضابطہ فوجداری، لوکل اینڈ سپیشل لاء، پولیس آرڈر، قانون شہادت پرسنل گرومنگ، دہشت گردوں کے خلاف ایکشن، ٹریفک قوانین سے آگاہی، اینٹی رائٹ اور مدد و توجہ کے مستحق محکوم طبقوں کی سہولت و راہنمائی کیلئے کمیونٹی پولیسنگ کے مضامین پڑھائے جارہے ہیں۔

نمایاں اعزاز پانے والی خواتین پولیس اہلکار

ہیلینا اقبال سعید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ مشن کے لیے پاکستان سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون پولیس افسر ہیں جو اس وقت سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں اقوام متحدہ کی اُس پولیس ٹیم کی سربراہی کر رہی ہیں جو سوڈان کی پولیس کو تربیت فراہم کر رہی ہے۔ہیلینا اقبال سعید پاکستان سے اقوام متحدہ کے مشن کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون کمشنر ہی نہیں بلکہ وہ پاکستان کی پہلی سی ایس ایس خاتون پولیس افسر ہیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی گریڈ 21 کی پہلی اسسٹنٹ آئی جی پولیس افسر ہیں۔ہیلینا اقبال سعید کے والد قاضی اقبال سعید اور ان کے نانا خان بہادر شاہ زمان وفاقی سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ہیلینا اقبال نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے 19ویں کامن پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انھوں نے آغاز میں تربیت فارن آفس میں خدمات حاصل کرنے کے لیے لی تھی مگر بعد میں انھوں نے پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پولیس کی تربیت بھی حاصل کی۔خواتین پولیس اہلکار امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ان تھک محنت کر رہی ہیں، کام کے دوران انہوں نے ثقافتی اصولوں اور حساسیت کو مدنظر رکھا اسی وجہ سے خواتین سےمتعلق جرائم کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔سونیا شمروز خان کو بہترین پولیسنگ اور خواتین پر تشدد کی روک تھام پر نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں پولیس آفیسر آف دی ایئر ایوارڈ سے نوازا گیا،سونیا شمروز خان ڈی پی او چترال اور دیگر عہدوں پر بھی کام کر چکی ہیں، انہوں نے جبری شادیوں کی روک تھام کیلئے شکایتی سیل بھی قائم کیے تھے۔انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ویمن پولیس نے ڈی پی او بٹگرام سونیا شمروز خان کو دنیا کی سب سے بہترین خاتون پولیس افسر کے ایوارڈ سے نواز دیا ۔ملکی پولیس میں جب سے خواتین نے شمولیت اختیار کرنا شروع کی ہے تو خالی مسلمان خواتین کی نہیں غیر مسلم خواتین کی بھی پولیس فورس کا حصہ بن رہی ہیں اور اہم عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں ۔ جیسا کہ منیشا روپیتا ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ڈی ایس پی ہیں۔ روپیتا چاہتی ہیں کہ ہندو برادری سے مزید خواتین بھی اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پولیس میں شامل ہوں۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قانون سازی سمیت کافی پیش رفت ہونے کے باوجود انصاف تک رسائی اتنی آسان نہیں ہوئی، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود بڑے صنفی خلا اور حکام کے درمیان صنفی حساسیت نہ ہونے کے باعث کئی مسائل ہیں۔ایک اور بات جس سے یہ صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے کہ 1994 میں ملک کے پہلے خواتین پولیس اسٹیشن کے قیام کے بعد سے تقریبا 3 دہائیوں کے بعد بھی صرف ایک درجن خواتین پولیس اسٹیشن ہی بن پائے ہیں جبکہ پولیس اور عدلیہ سمیت زیادہ تر اداروں میں مرد بالادستی اور ان کے اندر چھائی پدرانہ ذہنیت اپنے مسائل بتانے میں خواتین کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں۔دوسری جانب پولیس کے کچھ اعلیٰ افسران خاص طور پر موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور صاحب نے اس حوالے سے اصلاحات کا آغاز کر دیا ہے ۔ان کی جانب سے شکایت کنندہ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے گئے اقدامات، جیسے صوبے کے تمام اضلاع میں ہیلپ ڈیسک کا قیام، خواتین پولیس اہلکاروں کے ذریعے چلنے والا انسداد ہراسانی اور تشدد سیل بھی خاطر خواہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے اور فورس میں خواتین کی نمائندگی بھی غیر معمولی طور پر کم رہی۔ تاہم اب ایک ڈیڑھ سال سے ماحول بدل رہا ہے اور پولیس میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے سالوں میں کافی حد تک پاکستانی بیٹیاں پولیس فورس کا حصہ ہوں گی۔

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

ملیحہ سید
ملیحہ سید
ملیحہ سید سینئر صحافی و کالم نگارہ ہیں . انگریزی کے موقر قومی روزنامے میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں . شاعری ، افسانہ نگاری تراجم سمیت ادب و صحافت کے دیگر شعبوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں . ملیحہ سید اب ""دی جرنلسٹ ٹوڈے"" کے لیے مستقل بنیادوں پر لکھ رہی ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

الیکشن کے معشیت پر...

ایک طرف یہ نظریہ اور سوچ رائج العام ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی فعالیت...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

پاکستان میں انتخابات اوران کے نتائج کے اثرات

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت نہیں ملی۔پاکستان تحریک انصاف...

پنجاب کا رابن ہڈ …جس کاجنازہ 17500 افراد نے پیسوں کے عوض پڑھا!

تاریخ کے اوراق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے برصغیر پاک و ہند پر حکومت کرنے والوں کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے۔ پنجاب جو...

عطا تارڑ کی پیدائش ہیرا منڈی میں ہوئی … یہ کہانی کیا ہے ؟

سوشل میڈیا پر کسی بیانیہ کو سچ کیسے بنایا جاتا ہے ۔ تین دن پہلے ایک پلانٹڈ آرٹیکل لکھا گیا جس میں بتایا گیا کہ...

پاکستان کے لاپتہ نوجوان ووٹرز

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے لیکن دوسری جانب یہی نوجوان ملکی سیاست سے بدظن ہوتے...

نفاذ اردو والے بھی انگریزی کے دلدادہ ؟؟

آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی زبان اردو ہے اور اسی آرٹیکل میں لکھا ہوا ہے...