آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی زبان اردو ہے اور اسی آرٹیکل میں لکھا ہوا ہے کہ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اردو کا نفاذ کیا جائے گا مگر افسوس آج تک اردو کا نفاذ نہیں ہوپایا ۔ ہمارے ہاں ایک اور غلط فہمی "زیادہ پڑھے لکھے ” افراد کے اندر پائی جاتی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جبکہ سرکاری زبان یا دفتری زبان انگریزی ہے ۔ حقیقت میں آئین پاکستان میں ہی لکھا ہوا ہے کہ انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جاسکے گی جب تک اتنے انتظامات نہیں ہوجاتے کہ اردو اس کی جگہ لے لے ۔ قائم مقام سرکاری زبان انگریزی کی مدت اتنی طویل ہوئی کہ قائد اعظم کے فرمان کے باوجود ابھی تک ہم انگریزی کے تسلط سے باہر نہ نکل پائے ۔ اردو کا نفاذ آئین کے مطابق 15 برس کے اندر کرنا تھا اور انگریز ی زبان کی حکمرانی کا سورج 1988 میں غروب ہوجانا چاہیے تھا اس کےبعد اردو کا راج ہونا تھا ۔ مگر افسو س27 برس گزر گئے اور کسی نے اس جانب توجہ نہ دی ۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں دو درخواستیں دیں گئیں تھیں ایک ایڈوکیٹ کوکب اقبال کی جانب سے اور دوسری درخواست سید محمود اختر نقوی کی جانب سے ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ 08 ستمبر 2015 کو آیا جس میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا ۔ بینج کی صدارت اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کررہے تھے اور جسٹس دوست محمد خان ،جسٹس قاضی فائز بھی اسی بینج کا حصہ تھے ۔جنہوں نے اس فیصلے میں واضح طور پر لکھا تھا کہ
"اس فیصلے کا مقصد انگریزی زبان کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے جو بین الاقوامی تجارت اور دیگر سرگرمیوں میں استعمال میں لائی جاتی ہے ”
انہوں نے فیصلہ دیا کہ "وفاقی اور صوبائی حکومتیں آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا تاخیر اور پوری قوت سے فورا نافذ کریں ۔تین ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے ”
افسوس 42 برس کے بعد نفاذ اردو کا فیصلہ آیا اور اب 2015 سے لے کر 2023 تک 8 برس گزر گئے لیکن کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ۔
2015کے فیصلے تک نفاذ اردو کے لیے کوشش کرنے والے ایک گروپ کی طرح تھے ۔ اب تو نہ جانے کتنی تنظیمیں بن چکی ہیں ۔ قومی زبان اردو تحریک نے جسٹس جواد ایس خواجہ کو محسن اردو کا لقب دے دیا مگر افسوس کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے نفاذ اردو کا فیصلہ انگریزی میں جاری کیا ۔ بعد میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی گئی کہ نفاذ اردو کا فیصلہ اردو میں جاری کریں جس کا ترجمہ کیا گیا اور اس فیصلے کے نیچے رقم عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں
"نوٹ: آرٹیکل 251 کےتقاضے کے تحت اس فیصلے کا اردو ترجمہ بھی جاری کیا جار ہا ہے ۔ آرٹیکل (3)251 کے تحت صوبائی حکومتیں بھی اس فیصلے کے صوبائی زبانوں میں تراجم جاری کرسکتی ہیں ۔”
یعنی پنجابی میں فیصلے کا ترجمہ جاری کیا جاسکتا ہے کہ اردو کا نفاذ ضروری ہے ۔ اور جو انگریزی میں فیصلہ جاری ہوا اس کے اوپر ( ( Original Jurisdiction لکھا گیا ہے ۔
کل ایک تنظیم کا مطالبہ تھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس جواد ایس خواجہ کو خراج تحسین پیش کیا جائے میرا سوال یہی تھا کہ انہوں نے نفاذ اردو کا فیصلہ انگریزی میں جاری کیا اور انہوں نے اپنی حالیہ کتاب (Slaughtered without a Knife) انگریزی میں شائع کروائی ہے وہ محسن اردو کہاں سے ہوگئے ۔ ان کو خراج تحسین ضرور پیش کرتے اگر وہ اپنی کتاب اردو میں شائع کرواتے ۔ میرا اس تنظیم سے سوال ہے کہ اگر جسٹس جواد ایس خواجہ کو محسن اردو کا لقب دیا ہے تو جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیا قصور ہے ان کو بھی لقب دے دیتے، آپ نے تو ان کا ذکر تک فراموش کردیا ۔ ایڈوکیٹ کوکب اقبال کو پذیرائی دی گئی ہم تسلیم کرتے ہیں یہ ان کا حق تھا مگر سید محمود اختر نقوی کا کیا قصور تھا ان کو کیوں نظر انداز کردیا گیا ۔
پاکستان قومی زبان تحریک نے بہ عنوان "کل جماعتی نفاذ اردو کانفرنس ” کے نام سے تقریب کروائی مگر افسوس تشہیری بورڈ پر عنوان میں ہی فاش غلطی موجود تھی ۔ الحمرا ہال میں جو باہر تشہیری بورڈ آویزاں کیا گیا اس میں "نفاظ” لکھا گیا اور جو سٹیج کے پیچھے تشہیری بورڈ تھا وہاں پر ذ کی جگہ ز تھا یعنی "نفاز اردو ” ۔۔ نفاظ اردو کو تو بعد میں سرخ مارکر سے ذ کرکے درست کرنے کی کوشش کی گئی مگر جو سٹیج کے پیچھے تھا وہاں کسی نے بھی توجہ نہ کی ۔
اغلاط ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں مگر جب اغلاط کی نشاندہی کی جائے تو رعونیت اور فرعونیت کے لہجے میں کاٹ کھانے کو دوڑا جائے اور انسان کو سمجھ جانا چاہیے کہ عہدے پر براجمان لوگ اب متکبرانہ رویہ رکھ کر تحریک چلا رہے ہیں اور ایسی تحریک جس میں "ڈکٹیٹر شپ ” ہے ۔ جو اپنے سینئر ڈاکٹر شریف نظامی ، اپنے ساتھی ذیشان ہاشمی سمیت کئی محبان اردو کو فراموش کرچکے ہیں ۔ جس کی سربراہی اب سابق اے جی پنجاب یعنی سابق اکاونٹنٹ جنرل کررہے ہیں اور ا نہوں نے کامرس کی تعلیم اور ان کا روزگار انگریزی میں ہے ۔ اسی تنظیم کے خواتین ونگ کی صدر محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ جن کی میں عزت کرتا ہوں مگر ان کے متکبرانہ رویے اور رعونیت آمیز لہجے نے دکھی کیا ہے ۔انہوں نے جب تحریک چلائی اور لوگوں کو اردو کی طرف راغب کیا توانہوں نے بھی سیاستدانوں کی طرح لوگوں کے بچوں کو اردو کی جانب راغب کیا اور اپنی بیٹی کو ایم بی بی ایس کی تعلیم دلوائی ۔ ان کے بیٹے نے بھی اردو میں تعلیم حاصل نہیں کی ۔ ان کا روزگار اردو نہیں ہے ۔ ان کا اوڑھنا بچھونا اردو نہیں ہے ۔ میں وہ شخص تھا جس نے کامرس کو چھوڑ کر اردو کو اپنایا ۔ میں پنجاب کالج میں بی کام کررہا تھا جس کو چھوڑ کر اردو میں ایم فل تک کیا اور اس کے بعد اب پی ایچ ڈی بھی اردو میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ مجھ سے میڈم فاطمہ قمر پوچھ رہی ہیں کہ میں نے نفاذ اردو کے لیے کیا کام کیا ہے ۔ میں صحافتی ادارے سے وابستہ وہ شخص ہوں جس نے اردو کے لیے بار بار اپنی نوکری کو خطرے میں ڈالا ۔ہم تو نفاذ اردو کے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے رومن میں میسج تک نہیں کیا بلکہ ہم تو طلبہ کو اردو پڑھاتے ہیں اور ایک نئی نسل تیار کررہے ہیں ورنہ اب تو یہ حال ہے کہ ان کو اردو لکھوائیں وہ رومن لکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ ٹی وی سکرین پر میرے لکھے پروگرامز میں انگریزی کے الفاظ نہیں ہوتے ۔ سکرین پر چلنے والی پٹی پر انگریزی الفاظ نہیں ہوتے ۔ ہم نے مال روڈ پر احتجاج بھی کیے ۔ ڈاکٹر رضوان الحق اور ڈاکٹر تاثیر مصطفیٰ گواہ ہیں ۔
بہرحال طوالت سے بچنے کے لیے کل ہونے والی تقریب کے بارے میں بتاتا چلوں کہ پاکستان قومی زبان تحریک کے تشہیری بورڈ پر لگے لوگو بھی نفاذ اردو کی نفی کررہے تھے کیونکہ وہ سب لوگو انگریزی میں تھے ۔ وہاں مقررین نے بھی اردو کی ترویج کے لیے بات کرنے کے لیے انگریزی الفا ظ کا سہارا لیا ۔ چند مقررین کے علاوہ کسی کا بھی نفاذ اردو سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ تنظیم اردو کی ترویج کے لیے تنظیم نے تحریک کے لوگوں کو پس پشت ڈال کر ان سیاستدانوں کو اہمیت دی جو اسمبلی میں انگریزی کی ترویج کرتے ہیں ۔ گویا کل کی تقریب ایسے ہی تھی جیسے نفاذ اردو والے انگریزی کے ہی دلدادہ ہیں ۔