پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی صرف ملکی معیشت کے لیے ہی دباؤ کا باعث نہیں بن رہی بلکہ اس سے ریاست کے تمام شعبہ ہائے زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ آبادی وسائل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جبکہ ہر سال کے اختتام پر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں مزید اتنے فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی اس وقت 25کروڑ چھیاسٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔آبادی میں اضافے سے جہاں بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہیں سالڈ ویسٹ کے ایشو بھی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکے ہیں خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں شاہد ہر دوسرے شعبہ میں مینجمنٹ کے ایشوز بھی زیادہ ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملہ تربیت یافتہ نہیں ہے ، وسائل کی کمی ہے ، حکومتی فنڈز نہیں ہے، شہروں میں آبادی کی شرح زیادہ ہے ، لوگوں میں شعور نہیں ہے اور نہ ہی تعلیمی ادارے اور میڈیا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے جبکہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے توقع رکھنا عبث ہے کیونکہ ان کے لیے عوام صرف ایک ووٹ ہیں یا پھر ان پر قربان ہونے والا ریوڑ ۔
بڑے شہروں کے اہم ترین مسائل میں سالٹ ویسٹ ایک اہم ایشو کے طور پر سامنے آیا ہے جو براہ راست ماحولیاتی آلودگیوں میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے ۔ میں اس حوالے سے شہر لاہور کا ذکر ہی کروں گی کیونکہ لاہور اور کراچی اس حوالے سے شدید ترین متاثرہ شہریوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ حالیہ مردم شماری میں لاہور کی آبادی ایک کروڑ سترہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران لاہور کی آبادی میں 20 لاکھ 8 ہزار 387 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی ناصرف پنجاب کے دیگر شہروں بلکہ پاکستان کے تمام علاقوں سے لوگ بہتر تعلیم ، روزگار اور اور ملازمت کے لیے لاہور کا رخ کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہی لاہور میں سوسائٹیز کا ایک جال بچھ چکا ہے ۔ زیادہ آمدنی کے لالچ میں بھی لوگوں نے اپنے گھروں کے صحنوں میں کمرے بنا کر کرایہ پر چڑھا دئیے ہیں ۔ آبادی کے اس بڑھتے ہوئے دباؤ نے شہر کو شہر ہی نہیں رہنے دیا۔
اب ظاہر ہے کہ جتنی زیادہ آبادی اتنا ہی کچرا اور شہروں کو اس کچرے کی تباہ کاریوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ کچرے کے انتظام اور صحت عامہ کو بہتر بنانے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ٹولز کے اصولوں کی ضرورت ہے۔
فضلہ ایک غیر مفید مادہ ہے اور یہ ٹھوس، مائع یا گیس کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ فضلہ کی مختلف قسمیں ہیں کیونکہ فضلہ مواد کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتا ہے جو ان میں شامل ہیں۔ متعدی فضلہ، پیتھولوجیکل فضلہ، تیز فضلہ، کیمیائی فضلہ، دواسازی کا فضلہ، سائٹوٹوکسک فضلہ، تابکار فضلہ۔ماحول اور لوگوں کی صحت اور تندرستی پر فضلہ کے اثرات کی فوری ضرورت کے پیش نظر، ٹھوس فضلہ کے موثر انتظام کی ضرورت ہے۔ یہ فضلہ کے انتظام کے اصولوں کے اطلاق کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ٹھوس فضلہ کے انتظام کے اصول فضلے سے متعلق بیماریوں کے وسیع پیمانے پر کرنے کے ذریعے لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کریں گے، مصنوعات کے طویل استعمال میں مدد کریں گے، ہمارے ماحول کی خوبصورتی میں مدد کریں گے، دیگر فوائد کے ساتھ پیداواری لاگت کو کم کریں گے۔
جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ فضلہ مختلف شکلوں میں ہوتا ہے جس میں ٹھوس، مائع اور گیس شامل ہیں ۔ظاہر ہے اسی طرح فضلے کو ٹھکانے لگانے کا انتظام عام طور پر ہر قسم کے فضلہ بشمول صنعتی، حیاتیاتی، گھریلو، میونسپل، نامیاتی، بائیو میڈیکل، اور تابکار فضلہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ ماہرین کےمطابق کچھ معاملات میں کچرے کا انتظام اگر پائیدار طریقے سے نہ کیا جائے تو انسانی اور ماحولیاتی صحت دونوں پر منفی اثر پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ ویسٹ مینجمنٹ کے اصولوں کے ذریعے کچرے کے موثر انتظام پر زور دیا جاتا ہے، لیکن پوری دنیا میں ویسٹ مینجمنٹ یکساں نہیں ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔جہاں یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں کچرے کے مناسب اور پائیدار انتظام کا فقدان ہے جو پائیدار اور قابل رہائش شہروں کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اصول کیسے بنائے گئے۔مطالعے سے ایسا کوئی واضح فارمیٹ نہیں ملتا ہے جو یہ واضح کرے کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اصولوں کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی تاریخ نے کیسے تشکیل دیا تھا۔سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پچھلے ادوار میں صرف متضاد تھی جہاں گلیوں اور فٹ پاتھوں پر کچرے کا ڈھیر ہوتا تھا حالانکہ آبادی کم ہونے کی وجہ سے یہ غیر معمولی لگتا ہے۔تاہم، کچھ ممالک دوسروں کے مقابلے میں اپنے فضلہ کی پیداوار کو سنبھالنے میں زیادہ موثر رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وسطی امریکہ کی مایا کی ایک مقررہ ماہانہ رسم تھی، جس میں گاؤں کے لوگ اکٹھے ہو کر اپنے کوڑے کو بڑے بڑے ڈھیروں میں جلا دیتے تھے۔اسی طرح صنعتی انقلاب کے آغاز میں صفائی کی سطح اور شہری زندگی کے معیار میں تیزی سے کمی کی وجہ سے ہی 1751 میں لندن میں کوربن مورس کے ذریعے کچرے کو ہٹانے کے اختیارات کے ساتھ میونسپل اتھارٹی کے لیے کال کرنا پڑی۔ جبکہ 19ویں صدی کے وسط میں ہیضے کی وباء میں اضافے اور صحت عامہ کے مباحثوں کے بعد 1842 میں سماجی ورکر ایڈون چاڈوک کے ذریعہ محنت کش آبادی کی صفائی ستھرائی کی حالت پر بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا ۔اپنی ایک رپورٹ میں، انہوں نے آبادی کی صحت اور بہبود کو بہتر بنانے کے لیے مناسب کچرے کو ہٹانے اور سہولیات کے انتظام کی اہمیت پر زور دیا تھا ۔
کچرے میں اضافے نے کچرے کو جلانے کے لیے جلنے والی عمارتوں کا ایک انفراسٹرکچر بنایا گیا اور ان عمارتوں کو "ڈسٹریکٹر” کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد، کچرے کو ہٹانے کو اصل میں گھوڑوں کے ذریعے منتقل کیا گیا اور پھر بعد میں موٹرائز کیا گیا۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، شہری پھیلاؤ بڑھنا شروع ہوا، وہیں فضلہ کی پیداوار میں اضافہ ہوا تاہم اس کے ساتھ ہی کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے انتظام کے بہتر طریقے سامنے آنے لگے جس سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اصولوں کو جنم دیا گیا۔ بنیادی طور پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اہم اصول 3Rs ہیں۔ کم کریں، دوبارہ استعمال کریں اور ری سائیکل کریں۔ مگر ہمارے ہاں انہیں اختیار کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ کوئی ایسا ایک سٹ اپ نہیں ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ حکومت کی جانب سے اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ لاہور ایسے ہی نہیں ماحولیاتی آلودگیوں کا شکار ہوا ، ایسا نہیں ہے کہ کوئی ادارہ موجود نہیں ہے ۔
اداروں اور قوانین کی موجودگی تو ہے مگر دستیاب وسائل سے فیض یاب نہ ہونے کی روایت نے ہی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔
دو ہزار بیس میں امریکہ کے مشہور اخبار نیویارک ٹائمز کی جانب سے دنیا کے ان علاقوں کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جو دو ہزار اکیس میں سیاحت کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے 52 مقامات کی اس فہرست میں ہمارے شہر لاہور کو بھی شامل کیا گیا تھا۔نیو یارک ٹائمز نے ان مقامات کا انتخاب لوگوں سے آن لائن ان کی آراء جاننے کے بعد کیا تھا۔ لاہور کو لوگوں نے اس کے تاریخی کلچر، روایتی کھانوں اور یہاں کے باسیوں کی خوش اخلاق اور مہمان نواز فطرت کی وجہ سے اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے ووٹ دیے تھے۔
لاہور کا ایک بڑے اور بین الاقوامی جریدے کی طرف سے اس فہرست میں شامل کیا جانا بلا شبہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔ جس کی بڑی وجہ 2010 میں قائم کی جانے والی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عمدہ طریقے سے کام کرنا تھا۔مگر اس وقت کا لاہور اور تھا اور آج کس اور۔آج آپ کو اکثر مقامات پر کوڑے کے ڈھیر دیکھنے کو ملیں گے جو کہ بہت ہی افسوس ناک صورتحال ہے۔جسکی وجہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی پنجاب میں نااہل قیادت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ جس وجہ سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی تھی، اس صوبائی حکومت نے وہ وجہ ختم کر دی۔وہ وجہ اس کمپنی کا ترک کمپنی میسرز ازٹیک سے اشتراک کا وہ معاہدہ تھا جو مارچ 2010 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کروایا تھا۔ جس کے تحت بعد میں دو مزید کمپنیوں ’البراک‘ اور ’اوزپاک‘ کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا گیا تھا۔اس معاہدے کے بعد لاہور میں ہم نے نہ صرف جدید مشینری اور ٹرینڈ سٹاف کے ساتھ صفائی کے بہترین نظام کو دیکھا بلکہ اکٹھے کیے گئے کوڑے کو شہر سے باہر لکھو ڈیر کے مقام پر جدید سائنسی اصولوں کے مطابق منتقل کر کے اس سے بجلی بنتی بھی دیکھی۔یہی نہیں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے فری ہیلپ لائن کا آغاز بھی کیا گیا تھا۔ صفائی سے متعلق آگہی مہم بھی شروع کی گئی۔ جس میں تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی مقامات پر جا کر لوگوں میں صفائی سے متعلق آگاہی اور شعور اجاگر کرنا شامل تھا۔ مگر نااہلی سب کچھ نگل گئی۔
تاہم موجودہ نگران حکومت ایک بار پھر سے اس کمپنی کو فعال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ لاہور کو کچرے سے دیگر ویسٹ کے خطرات سے نکالا جا سکے ۔ کمپنی کو ایک بار پھر سے جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کمپنی شہر سے پانچ ہزار ٹن کچرا اٹھا رہی ہے مگر اب ایک بار پھر سے مگر زیادہ بہتر بنیادوں پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آلودگی میں سرفہرست لاہور شہر اور اس کے باسیوں کو نئی زندگی مل سکے۔ اس کے علاؤہ شہر کو اپنی حدود کے معاملے میں بھی مینج کرنے کی ضرورت ہے ، آبادی کا دباؤ کم کرنے کی ضرورت ہے ، قریبی شہروں کے ساتھ آمد و رفت کے وسائل تیز اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے شہروں سے لوگ ملازمت کے لیے تو شہر آئیں قیام کے لیے نہیں ۔ اس طرح بڑے شہروں میں آبادی کے تناؤ کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کے پاس وسائل بہت محدود ہیں ، ہمیں جو بھی کرنا ہے انہی وسائل کے اندر رہ کر کرنا ہے ۔ اس لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے عوامی سطح پر تربیت اور آگاہی بہت ضروری ہے ۔