دنیا بھر میں مجرموں کو جیل میں رکھا جاتا ہے . جیل میں رکھے گئے مجرموں کے لیے بھی قوانین موجود ہیں اور پوری دنیا میں مجرموں کے لیے طے شدہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے. بعض جیلوں کے حوالے سے شکایات بھی سامنے آتی ہیں .اس سے پہلے بعض خطرناک جیلوں کے حوالے سے ایسی خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ کہیں قیدیوں کو قتل کرنے کے بعد الٹا لٹکا دیا جاتا ہے تو کہیں قیدی ایک دوسرے کو مار کر کھا جاتے ہیں۔ کسی جیل میں قیدیوں کو گھنٹوں پانی نہیں دیا جاتا۔ تو کہیں عورتیں مرد قیدیوں کی پٹائی کرتی ہیں۔ لیکن آج ہم جس ظرناک جیل کے بارے میں بتا رہے ہیں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے . یہ کوئی ماضی کا قصہ نہیں بلکہ حالیہ صورت حال ہے اور یہ سب ہو رہا ہے ایک ایسے ملک میں جو دنیا کے سامنے انسانی حقوق کا نام نہاد علمبردار بھی ہے .
یہ کہانی ہے ایک ایسی خطرناک جیل کی جہاں چند روز قبل 67 ہزار قیدیوں کو بھیجا گیا تھا لیکن اب انکشافات ہو رہے ہیں کہ اس جیل میں بھیجے گئے مجرم لاشوں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں
کہانی شروع ہوتی ہے وسطی امریکی ملک ایل سلواڈور سے ،جہاں کے صدر نائب بوکیل نے غنڈوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے غنڈوں اور جرائم پیئشہ عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپناتے ہوئے ملک کو ان سے پاک کرنے کا مشن شروع کیا اور 67 ہزار سے زائد جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔ یہ اتنی بڑی تعداد تھی کہ ان ملزمان کو رکھنے کے لیے ملک کی جیلیں کم پڑ گئیں جس پر حکومت نے خصوصی جیل بنوائی۔اس خصوصی جیل کو ظالم ترین جیل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں بھیجے گئے تمام ملازمان انتہائی خطرناک غنڈے تصور کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف اس جیل میں حکومت کی پالیسی بھی بدل جاتی ہے . یہاں قیدیوں کو گھٹنوں کے بل رکھا جاتا تھا۔ ان کے جسم پر خصوصی ٹیٹو بنوائے گئے تھے۔ جب انہیں لے جایا جا رہا تھا تو ان کے جسم پر کپڑے نہیں تھے۔
ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں میں سے 153 کی موت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں اور حال ہی میں ان لاشوں کو جیل سے باہر منتقل کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک گروپ کرسٹوسل نے بھی اس پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں حکومت پر کئی الزامات لگائے گئے ہیں . یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرنے والوں میں سے کسی پر بھی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ جن جرائم کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا ان کی بھی پوری طرح سماعت نہیں کی گئی تھی ۔ ان مرنے والوں میں چار خواتین قیدی اور باقی تمام مرد قیدی تھے۔ اس خوفناک جیل میں ان قیدیوں پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔ مرنے والے ان قیدیوںکے جسم پر شدید زخموں کے نشانات تھے اور خاص طور پر ان کے جسم کے نازک حصوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان میں سے آدھے لوگ مار پیٹ کی وجہ سے مرے جبکہ کچھ لوگ غذائی قلت کی وجہ سے بھی موت کا شکار ہوئے یعنی یہاں لوگوں کو کھانا بھی نہیں دیا جاتا۔ رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ یہاں قیدیوں کو یہاں بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے تھے .
اس رپورٹ میں مزید کئی خوفناک انکشافات ہوئے ہیں جس کے مطابق جیل کے سکیورٹی اہلکار اور افسران ان قیدیوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کرتے تھے۔ قیدی بیمار ہو جاتے تو ان کا کسی قسم کا علاج نہیں کیا جاتا . انہیں جان بوجھ کر ادویات اور کھانا وقت پر نہیں دیا جاتا۔ دوسری جانب حکومت نے ابھی تک قیدیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔
دنیا کی سب سے خطرناک جیل ..جہاں جانےوالوں کی لاشیں باہر لائی جا رہی ہیں !
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔