دروازے پر دستک ہوئی تو شوکت سراج نے سلگایا ہوا سگار ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اندر آنے کی اجازت دی۔ کمرہ میں داخل ہونے والا سہما ہوا وجود اسے اس وقت کانپتا ہوا بھی محسوس ہوا۔
جس کا احساس ہوتے ہی اس کے منہ سے ایک آہ بلند ہوئی جسے کمرے میں داخل ہونے والے ذی روح نے واضح طور پر سنا۔اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے ،شاید وہ بہت روئی تھی۔
یہ شوکت سراج کے بچوں کی آیا الوینہ تھی جس کو آج اس نے ملاقات کا وقت دیا ہوا تھا، اسے اسکا معاوضہ ادا کر کے ملازمت کا معاہدہ ختم کرنا تھا۔
یہ اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی بیوی اس سے راضی نہیں تھی مگر شوکت سراج کو الوینہ پسند تھی وہ ایک نفیس اور ہوشیار آیا تھی۔
شاید واجبی شکل و صورت کی ہر کاہل اور سست عورت ، متحرک اور اثر انداز ہونے والی حسین عورت سے خوف زدہ رہتی ہے۔مسز شوکت کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا ، اس کا رویہ فطری تھا اور شوکت سراج اس سے متفق بھی تھا۔
مگر وہ کسی بھی عمر کے مرد کو بھی نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ کم رو امیر عورتیں خوشامد پسند ہوتی ہیں اور انہیں بے وقوف بنانا بھی آسان ہوتا ہے یہ شوکت سراج کا خیال تھا جس سے ہم سب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس نے الوینہ کو اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کسی لگی لپٹی بغیر اصل مدعے پر آیا۔ اسے پتہ تھا کہ اسے الوینہ سے کیا بات کرنی ہے مگر دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اسی سوچ کے پیش نظر کہنے والی بہت سی باتوں کو اس نے کسی اچھی جگہ ملاقات پر رکھ چھوڑا۔
تو مس الوینہ الٰہی آپ نے ہمیں دو ماہ پہلے جوائن کیا تھا پندرہ ہزار ماہوار معاوضہ پر۔شوکت سراج نے اپنی ڈائری میں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں نہیں دو ماہ اور چودہ دن ہوئے ہیں اور یہ پندرہ نہیں بیس ہزار تھے ۔ آپ زرا غور سے دیکھیں پیلز۔ الوینہ نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے، دھیمے اور سسکتے ہوئے لہجے میں کہا۔
تو کیا میں آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔ شوکت سراج نے استہفامہ انداز میں اسے گھورتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھیں میں نے خصوصی طور پر ڈائری میں نوٹ کیا تھا۔
الوینہ ہاتھ مسل کر رہ گئی ۔۔۔۔ اسے پیسوں کی اشد ضرورت تھی اس نے سرینڈر کر دیا ۔ شاید مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔شوکت سراج کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی۔ الوینہ کو وہ خون پینے والی جونکوں سے بھی بدتر لگا۔سرانڈ زدہ جانور۔ اس کے اندر نفرت کی لہر دوڑ گئی۔
اور دو ماہ میں سے دس دن آپ نے ہمارے بڑے بیٹے ولید کی دیکھ بھال نہیں کی کیونکہ وہ اپنی خالہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس لیے پانچ ہزار اس کے کاٹے جا رہے ہیں۔ اس نے ڈائری میں حساب کتاب لکھتے ہوئے کہا۔
الوینہ نے بے بس نظروں سے شوکت سراج کی طرف دیکھا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ زیادتی کر رہا ہے اور مسلسل دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے مگر وہ خاموش تھی۔
آٹھ اتوار بھی نکال دو ۔۔۔ تمھیں معلوم ہے کہ تم اتوار کو احمد اور صالحہ کو نہیں سنبھالتی تم صرف باہر لان میں چہل قدمی کرتی ہو اور ہاں تین چھٹیاں بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔
الوینہ کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو گیا ۔اس نے اپنے دوپٹے کے پلو کو اپنی انگلی میں لپٹنا شروع کر دیا مگر منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔
“تین چھٹیوں کے ڈھائی ہزار نکال دو۔ نو اتوار کے بھی زیادہ نہیں بس سات ہزار کاٹے جائیں گے۔
تین دن تمھارے دانت میں درد رہا اور میری بیوی نے تمہیں لنچ تک چھٹی دے دی ۔تیس میں سے پانچ، ڈھائی اور سات ہزار منفی کرو تو بچے ساڑھے چودہ ہزار۔ درست؟
الوینہ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔اس کی ٹھوڑی کانپی ، مضطرب ہو کر کھانسی ،ناک صاف کیا لیکن ایک لفظ نہ بولی ۔
تمہاری غفلت کی وجہ سے ولید درخت پر چڑھا اور اپنی جیکٹ پھاڑ لی ۔ایک ہزار اس کے نکال دو اور پھر تمھاری لاپرواہی کی وجہ سے نوکرانی نے صالحہ کے جوتے چرا لیے ۔تمہیں ہر چیز پر نظر رکھنی چاہیے تھی نا ۔اس کا مطلب ہوا کہ ایک ہزار مزید کم ہو گئے ۔
اور دس جنوری کو میں نے تمھیں پانچ ہزار دئیے تھے———-“
"آپ نے نہیں دئیے۔” الوینہ بیچارگی سے بولی ۔
"لیکن میرے پاس لکھا ہوا ہے "۔۔ شوکت سراج نے زور دیتے ہوئے کہا
چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔ شاید میں ہی بھول رہی ہوں۔۔ اس نے بے بسی سے کہا۔۔۔ ہائے بے چاری لڑکی !
"سات ہزار، ساڑھے چودہ ہزار سے نکال دو باقی بچے ساڑھے سات ہزار”۔
صرف ایک دفعہ میں نے آپ کی بیوی سے دو ہزار کی رقم ایڈوانس لی تھی اس سے زیادہ نہیں ۔۔۔ اس نے کانپتی آواز میں کہا ۔
"واقعی ؟ یہ تو میں نے لکھا ہی نہیں ۔ساڑھے سات ہزار میں سے دو ہزار منہا کرو باقی بچے ساڑھے پانچ ہزار۔
” یہ رہے ساڑھے پانچ ہزار ” شوکت سراج نے ساڑھے پانچ ہزار کی رقم اس کے آگے کی۔ اس نے وہ پیسے لیے اور کانپتے ہاتھوں سے انہیں سوئیٹر کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے آہستگی سے شکریہ کہتے ہوئے آٹھ کھڑی ہوئی۔
کیا۔۔۔۔۔۔ وہ اچھل پڑا اور کمرے میں ٹہلنے لگا ۔غصے سے اس کا برا حال ہو گیا۔
اس نے پوچھا۔
"شکریہ۔۔۔؟ ———- مگر کیوں اور کس لیے؟؟؟؟؟بولو
اس رقم کے لیے ۔۔۔۔
“لیکن تم جانتی ہو میں تمہیں دھوکا دے رہا ہوں ۔ میں تمہیں لوٹ رہا ہوں۔ تمہارے پیسے چوری کر رہا ہوں ۔ تم سے فراڈ کر رہا ہوں ۔۔ تمہارا حق مار رہا ہوں۔
پھر یہ شکریہ کیسا اور کیوں؟؟؟ شوکت سراج کا سر گھوم کر رہ گیا۔
"دراصل اب تک جتنی جگہوں پر میں نے کام کیا انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا”۔۔۔ پیسے دینے کی باری آتی تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا جاتا اور دو تین ماہ بعد ملازمت سے نکال دیا جاتا۔خاموشی کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور نہ ہی لڑنے اور بولنے کی ہمت ۔ میں خاموشی سے عزت بچ جانے پر شکر ادا کرتی۔
تو کیا کبھی کسی نے تمہیں کچھ نہیں دیا ۔۔۔۔؟؟
نہیں ۔۔۔۔۔ ! یہ کہہ کر الوینہ نے اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہوئے جانے کی اجازت چاہی۔۔
سنو ۔۔۔۔ شوکت سراج نے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ اس میں بیس ہزار کی مناسبت سے تمہاری تین ماہ کی تنخواہ موجود ہے۔میں تم سے مذاق کر رہا تھا ، ایک تلخ سبق سکھانے کے لیے۔۔
الوینہ بے چارگی سے مسکرائی اور شوکت سراج نے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھے ۔”یہ ممکن ہے ” ۔۔۔۔۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔
وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گئی ۔میں نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور سوچا !
“اس دنیا میں کمزور کو دبانا کتنا آسان ہوتا ہے ۔”
روسی ادب سے ماخوذ
انگریزی عنوان: A Nincompoop، مصنف انتون چیخوف
(ایڈیٹر نوٹ : انتون چیخوف (29 جنوری 1860 – 15 جولائی 1904) ایک روسی ڈرامہ نگار اور مختصر کہانی کے مصنف تھے. انہیں تاریخ کے مختصر افسانے کے عظیم ترین مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔دی جرنلسٹ ٹوڈے سے منسلک صحافی ومترجم ملیحہ سید نے اس افسانے کو اس کمال ہنر سے اردو ادب اور پاکستانی کلچر میں ڈھالا ہے کہ گویا انتون چیخوف نے یہ افسانہ پاکستانی رویوں ، کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو میں ہی لکھا ہو .)