شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اٹھارویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ رجوع الی القرآن و الحدیث ،دعوت علوم اسلامی کے احیاء اور تجدید کے کام سے وابستہ رہے۔ان کا خانوادہ بلند علمی مقام رکھتا ہے ۔ لیکن اپنے کام اور پھیلاؤ کے حوالے سے شاہ صاحب اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔
شاہ صاحب سماجی علوم اور تاریخی ارتقاء پہ مجددانہ دسترس رکھتے ایک روشن فکر مفکر تھے۔ التفہیمات الالیہہ شاہ صاحب کی اپنے موضوع کے تنوع اور جامعیت کے لحاظ سے ایک منفرد تصنیف ہے۔اصل کتاب ،عربی اور فارسی زبان میں ہے۔ کچھ عبارات فارسی اور کچھ عربی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ جس کے بہت سے نسخہء قلمی اور مخطوطہ کی صورت میں مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔
خطبات ان کی قلبی واردات روحانی مشاہدات اور تاثرات ہیں۔ اس کتاب کو 1932ء میں پہلی دفعہ ڈابھیل سے شائع کیا گیا اور اسی نسخہء کی بنیاد پر دونوں جلدوں کو پاکستان میں ایک کتاب کی شکل میں عکس پبلیکیشنز نے مولانا عقیدت قاسمی کے ترجمہ ڈاکٹر خلیل الرحمٰن کی نظر ثانی اور مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
اپنے اسلوب اور موضوع کے لحاظ سے عام ذہن کے لیے ایک مشکل کتاب ہے۔ لیکن شاہ صاحب کے دیگر لٹریچر سے اس کتاب کے فہم میں کم مشکلات پیش آتی ہیں۔ تصوف اور طریقت کے ساتھ اپنے الہامات اور مبشرات کا بیان بہت سے حوالوں سے قاری کو الجھا بھی دیتا ہے۔ لیکن کسی بھی بڑے مفکر کو سجھنے کے لیے اس کے پیام اور اس کی تصنیفات کے ساتھ کچھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔
میں نے شاہ صاحب کے شارحین کو بھی ان کے فلسفہ کی عصری تطبیق سے گریزاں اور کمزور پایا ہے۔۔ لیکن یہ الگ موضوع ہے۔ جدید دور کے تقاضوں اور انکوائری کے باوجود ہمیں اپنے علمی ورثے کا اچھا شارح اور اس کی تشکیل جدید کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔۔ عقیدت اپنی جگہ لیکن ہمارے دور کے لیے اس علمی ماضی میں کیا ہے اس کی الگ سے اہمیت سے بھی انکار نہیں۔
آپ ماضی میں سانس لیجیئے لیکن واپس بھی لوٹ آنا ہے تاکہ ہم عصر حاضر کو کچھ نیا اور نئے انداز اور اسلوب کا علمی سرمایہ دے سکیں، دکھا سکیں اور اپنے شعور کو ماضی سے مستفید دانش اور روشن فکری کے سائبر شعور سے انطباق کے قابل بنا پائیں۔۔اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
التفہیمات الالیہہ میں شاہ صاحب کے دو سو تیس خطبات اور دروس ہیں۔ اور ہر ایک الگ موضوع اور مشاہدہ پر ہے۔ فکری گہرائی کے ساتھ ان متنوع موضوعات میں سے یہاں ہم ان موضوعات کو شامل کر رہے ہیں۔ جن میں شاہ صاحب نے ایک الگ اور شعورِ انسان کو زیادہ بلند کرتی اور وسعت نگاہ دیتی فکر کو مدار بنایا ہے۔
ابتدائی خطبات میں ان کا ایک خطبہ چونکا دینے والے عنوان سے موجود ہے۔ نبوت اور فطرت کا عنوان اس لیے چونکا دیتا ہے کہ فطرت ہمارے فہم سے قریب ہے۔۔ اور سائنسی تعبیرات نے اسے اور قریب کردیا ہے بل کہ ایک حد تک ہمیں فطرت سے مانوس کردیا ہے۔
عام طور پر یہ عقیدہ بنا لیا گیا کہ نبوت اور نبی کا تعلق فطرت سے نہیں کہیں عالم بالا سے آئے اور ہر لمحہ وہاں جڑے ہوئے ہیں ۔۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی فطرت کے ساتھ پورے شعور اور گہرائی کے ساتھ ہمہ وقت جڑا ہوتا ۔۔ اور ہم کبھی کبھی فطرت سے مکالمہ کر پاتے ہیں ۔
شاہ صاحب کہتے ہیں جاننا چاہیے کہ نبوت فطرت کے تحت ہے۔ جس طرح انسان کے خلوص کی توانائی کے ساتھ دل اور اس کی جبلت میں میں علوم داخل ہو کر اس کی تربیت اور تہذیب کرتے ہیں۔ اور اس کا فیضان اس پر خوابوں کی صورت ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان خواب میں اپنے وجود اور دل میں جمع امور کو ہی ان خوابوں میں دیکھتا ہے۔
اسی طرح ہر قوم اور ہر اقلیم کی الگ فطرت ہوتی ہے۔ جس پر ان کو پیدا کیا جاتا ہے۔ ان کے امور کی بنیاد پوری طرح اسی فطرت پر ہوتی ہے۔
جیسے ذبح کو قبیح قرار دینا اور عالم کے قدیم ہونے کا قول وہ فطرت ہے جس پر ہندوؤں کو تخلیق کیا گیا اور ذبح کے جواز اور عالم کے حادث ہونے کا قول وہ فطرت ہے جس پر عرب اور فارس کے بنو سام کو پیدا کیا گیا ہے، چنانچہ جب نبی آتا ہے تو ان کے پاس جو اعتقاد اور عمل ہوتا ہے۔
وہ اس میں غور و فکر کرتا ہے پھر ان میں سے جو تہذیب نفس کے مطابق ہوتا ہے اسی کو ان کے لیے برقرار رکھتا ہے۔ اور اس کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ جو کچھ تہذیب نفس کے خلاف ہوتا ہے ان سے روکتا ہے۔۔۔
اور کچھ اختلاف جود و سخا کے نزول کے اختلاف کے قبیل سے ہوتے ہیں ۔
جیسا کہ مجوس کی توجہ آسمانی قوتوں کی طرف ہوتی ہے اور حنفاء یعنی مسلمانوں کی توجہ ملاء اعلی کی طرف ہوتی ہے کسی غیر کی طرف نہیں۔ نبوت بمنزلہ کسی چیز کو مہذب بنانے اور احسن بنانے کے ہے۔! شاہ صاحب عقل کے موضوع پر فرماتے ہیں۔ عقل اشیا کے حقائق کی تمیز اور اشیا کے تعین کا مبداء ہے۔
نمؤنہ ذات الٰہی اور اس کی مشابہت ہے۔ عقل کے لحاظ سے حقائق کی تمیز چند صفحات کی نہایت علمی بحث ہے۔ جس میں عقل اور حقائق میں پوشیدہ استعداد پر بحث کی گئی ہے۔۔ کامل کی بحث اقطاب مرشدین کا ذکر یہ تصوف سے جڑے موضوعات ہیں۔
مرشد کے ٹائٹل کو وہ مشابہت سے تعبیر کرتے ہیں
فرماتے ہیں۔ لوگوں پر احسان کی صفت کی جہت سے حق تعالیٰ کی عنائت نے قوم کو آمادہ کیا تو انھوں نے اقطاب کا نام مرشد رکھ دیا۔احسان اور خضوع سے کام لینے والے فرشتوں کے مشابہ ہوگیا۔
جو سخت علاقے میں رہتے تھے جیسے ترک، انہوں نے مشقت والے اشغال کا استنباط کیا جو قوتِ بہمیہ کو توڑ دیتے ہیں اور جو اقلیم معتدل میں تھے انہوں نے مسلسل فیضان والے اشغال کا استنباط کیا جس کی طرف فکر و بہمیت والے راغب ہوئے۔ شاہ صاحب فکر وبہمیت کو دعاؤں اور وظیفوں کے اشتغال کے سلسلے میں شامل کرتے ہیں۔
قوی بہمیت والوں کو تجرد تنہائی اور دنیاوی لذتوں سے مکمل قطح تعقل کے سلسلے والوں میں شمار کرتے ہیں۔
اسلامی تصوف اور نبوت کے ذیل میں اس تناظر میں بہت کم بات ہوئی ہے۔ یہ شاہ صاحب کی نابغہ شخصیت کی فکر رسا کی ہمت ہے۔
لیکن اس حوالے سے اسلامی لٹریچر میں ایک طرح کا گریز بھی موجود ہے۔ کہ انبیاء اور صوفیا کی ہستیوں کو اس حوالے سے نہیں دیکھا جاتا۔ ممکن ہے ہمت کے پر جلتے ہوں۔ یا موضوع کی مشکلات ہوں ۔ بہرحال التفہیمات الالیہہ کے یہ دو موضوعات غور و فکر کرنے والوں کے لیے دعوت مبارزت ہیں۔۔
کتاب میں موضوعات کی وسعت اور تنوع بہت زیادہ ہے۔ تصوف کی حقیقتوں اور نکتہ آفیرینوں کے ساتھ حقیقت اشیا اوقات کی تاثیر ، ابداع کی حقیقت احکام ظاہر و باطن، خواب تعبیرات تماثیل علامتیں اور تاریخ کے مناقشے بھی تفہیمات کے اس سلسلہ میں شامل ہیں۔
سالک و سلوک ، حلول سرمدی، وحدت و کثرت، پیر و مرشد استاد وشاگرد دعا کی حقیقت، عالم دنیا کون ومکاں اور عالم نبوت کے اسرار کو بیان کرتی یہ کتاب شاہ صاحب کی وسعت علم و فضل کی گواہی ہے۔ اسلوب مشکل ہے۔ قدیم علمی اصطلاحات کی وجہ سے اور مشکل ہے۔
کچھ مسائل متروکات کی وجہ سے بھی پیش آئیں گے
لیکن دقیق علمی اور صوفیانہ موضوعات کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حرف و معنی صرف دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ اور رجحان رکھتی طبیعتوں پر کھلتے ہیں۔ عام ذہن کے قاری کے لیے مشکلات ضرور ہیں۔ لیکن کسی بھی بڑے مفکر کے ہاں عام آدمی کے لیے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔
یہ خطبات بھی محبت رسول فہم اسلام اور مسلمانوں کی رہنمائی کا روزنامچہ ہیں۔ جو جس توجہ سے آئے گا وہ ضرور اپنے مقدر کی روشنی لے جائے گا۔ تفہیم کے اس وقیع علمی سلسلہ کے آخر پر خطبات کے ذریعے اس سلسلے کا ختتام کیا گیا ہے۔ جس میں شاہ صاحب اپنا پیغام توحید و رسالت کے اقرار اور درود و سلام اور قربانی کی فضلیت اور مسائل کی آگہی دینے کے بعد سمیٹ لیتے ہیں۔
ماشااللہ-
خیر زمان راشد صاحب بہت خوشی ہوئی آپ کا اجمالی تبصرہ پڑھ کر۔ خوشی اس لیے بھی زیادہ ہوئی کہ میرا تعلق بھی نیلم سے ہے۔ تحقیق کی بنیاد پر اپنا منطقی موقف پیش کرنے کا رویہ و رحجان ہمارے معاشرے سے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں میری ہی ویلی کے باسی کی علمی کاوش لائق تعریف و تحسین اور قابل فخر بھی ہے۔
شاہ صاحب ولی اللہ کی فکر سے ٢٠٠٦ میں دوران تعلیم میرپور میں تعارف ہوا اور اس کے بعد سے مسلسل کسی نا کسی صورت میں تعلق بنا رہا ہے۔ شاہ صاحب کی فکر کی سب سے خوبصورت بات یہ لگی کہ ہمہ جہت ہے اور بدلتے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔ شاہ صاحب طہارت’ اخبات’ سماحت اور عدالت کے بنیادی اخلاق پر بلا تفریق مذہب’ رنگ’ نسل انسانیت کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی جو فکر پیش کرتے ہیں وہ آج کی تقسیم شدہ دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ "میں نے شاہ صاحب کے شارحین کو بھی ان کے فلسفہ کی عصری تطبیق سے گریزاں اور کمزور پایا ہے”۔ یقیناً آپ کی اپنی تحقیق اور تجربات ہوں کہ ان کا انکار نہیں مگر خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ کی فکر پر لاہور (مرکزی) اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے نام سے مراکز قائم ہیں جو شاہ صاحب کی فکر کی تعلیم و ترویج کر رہے ہیں۔ ملک میں بڑے پیمانے پر کالج و مدرسہ کی تفریق سے بالاتر تمام شہریوں بالخصوص نوجوانوں کو ملکی معاشی’ سیاسی’معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا حل شاہ صاحب کی ہمہ جہت فکر کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں۔
مجھے یقین ہیکہ اگر آپ کچھ وقت مہیا کر کے ادارہ اور اس کے کام سے تعارف حاصل کریں تو آپ کا شاہ صاحب کے شارحین کی کمزوری اور گریز کا شکوہ ختم ہو جائے گا۔
دعاؤں کا طالب۔
تصور مغل سالخلہ’ نیلم ویلی۔