جہانگیر ترین کے بھائی پراسرار طور پر مردہ پائے گئے ہیں وجہ موت خودکشی بتائی جا رہی ہے. اطلاعات کے مطابق متوفی بہت امیر تھے ایک معروف سافٹ ڈرنک کمپنی کے ملتان ڈویژن کے سی ای او تھے۔ عالمگیر ترین کا آخری خط منظر عام پر آ گیا ہے ، آسائشوں میں زندگی گزارنے والے انسان نے بیماری سے خوفزدہ ہو کر اپنے ہاتھوں زندگی کو شکست دے دی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ
"میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا زندگی بہت خوبصورت ہے، میں بھرپور زندگی جی رہا تھا۔ کچھ عرصہ قبل سری لنکا چھٹیوں پر گیا تھا۔ بیماری نے جب مجھے گھیرا تو سٹی رائیڈ لینا شروع کیا۔ سخت ادویات کی وجہ سے میرا چہرا اور جلد متاثر ہوے لگی۔ مجھے پڑھنے میں بھی مشکلات آرہی تھیں۔۔ مجھے نیند نہ آنے کا مسئلہ بھی ہو گیا تھا۔ نیند کی گولیاں لے کر سوتا تھا۔مجھے اتنے مسائل ہو گئے کہ بتا نہیں سکتا۔اب میں اس بیماری سے تھک گیا ہوں "۔
اطلاعات کے بعد کافی قیاس آرائیاں سامنے آئیں کہ یہ قتل ہے مگر اس تحریر کے سامنے آ جانے کے بعد اس قسم کی قیاس آرائیوں کا جواز باقی نہیں رہتا۔ تاہم اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ایسا واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی وقتاً فوقتاً مختلف معروف شخصیات کے بارے ایسی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں. جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خود کشی کی وجہ صرف غربت ہی نہیں ہے بلکہ اسکی درجنوں وجوہات ہیں جو کسی بھی فرد کو اپنے گھیرے میں لے سکتی ہیں۔ دنیا میں ہر سال 800،000 ( آٹھ لاکھ) لوگ خود کشی کر لیتے ہیں ۔ آٹھ لاکھ معمولی تعداد نہیں ہے ۔
رپورٹس کے مطابق آج کے دور میں ہر تیسرا شخص ٹینشن، ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہے تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے خطے جس،مین پاکستان اور انڈیا شامل ہیں ۔ یہاں لوگوں کی اکثریت ڈپریشن کو سیریس نہیں لیتی اور اس کا علاج کروانا گوارا نہیں کرتی۔ ڈپریشن اور انگزائٹی ایسی بیماریاں ہیں جن کا سو فیصد علاج موجود ھے مگر پھر بھی لوگ اس کا مناسب علاج کروانا گوارا نہیں کرتے اور اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔صرف امریکہ جیسے ملک میں ہر سال ڈیپریشن سے سالانہ 30،000 افراد خودکشی کر کے اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا میں اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات افریقہ میں پیش آتے ہیں۔
جبکہ ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرتے ہیں یا کم ہی مدد کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
وہ کون سے موضوعات ہیں جن کے بارے میں نوجوانوں کو زیادہ بات کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔۔۔ ؟خودکشی اپنی جان لینے کا ایک سفاکانہ عمل ہے، ایک تحقیق کے مطابق خودکشی موت کی 10ویں بڑی وجہ ہے جو ہر سال لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔جبکہ پاکستان کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں خودکشی کی شرح آٹھ فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے جبکہ خودکشی کی 200 میں سے ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔
خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر افراد غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو کر اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ اکثر عورتیں گھریلو تشدد سے تنگ کر اپنی جان لے لیتی ہیں۔پاکستان کے دیہی و پس ماندہ علاقوں میں بیس سے چالیس سال کی شادی شدہ خواتین میں خودکشی کے رحجانات زیادہ ہیں اس کی اصل وجہ غربت، بے روزگاری، ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں۔
جن جوان عورتوں کے مرد حضرات روزگار کمانے کی خاطر تین چار سال کے قریب گھر سے باہر ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے گھر میں ان خواتین پر دباؤ ہوتا ہے اور یہ خواتین گھریلو پریشانیوں اور معاشرے کے رسوم و رواج کی بندشوں کی وجہ سے ذہنی کھچاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، جو ان کو اس انتہائی اقدام کی طرف لے جاتا ہے۔
گذشتہ کئی سالوں سے بھارت کی فلم انڈسٹری میں بھی فنکاروں کی جانب سے خودکشی کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ جاپان میں لوگ گروپ کی صورت میں اپنی جان لیتے ہیں ۔فلموں میں خودکشی کو ایک فینٹسی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے اور اسی میں مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دنیا بھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجانات پر پر انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اوراس خوفناک شرح کو پبلک ہیلتھ ایشو قرار دیا جارہاہے۔ اس موضوع پر باقاعدہ ریسرچ کی جارہی ہے اوراس میں فوری کمی لانے کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں۔
صحت کا عالمی ادارہ (WHO) خودکشی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اس کی زیادہ تر توجہ ترقی پذیر ممالک پر مرکوز ہے۔خودکشی پر تحقیق کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور اس کے رجحانات پر بحث و مباحثہ بھی ہورہاہے۔عام مطالعے کے مطابق خودکشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ نمایاں ہے لیکن خودکشی کی کوشش کی شرح خواتین میں مردوں سے زیادہ بلند دیکھی گئی ہے۔ جاپان میں خودکشی کو معاشرتی اعتبار سے ایک اچھا فعل تصورکیا جاتا ہے اور اسے شرم و حیا کی پاسداری کی علامت سمجھاجاتا ہے۔برصغیر پاک وہند میں خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں،مالی مسائل اور خاندانی مسائل۔
کچھ عرصہ پہلے یونان میں مالیاتی مسائل خودکشی کی سب سے بڑی وجہ بنے جب کہ سائپرس میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ بھارت میں فصلوں کے تباہ ہوجانے کے نتیجے میں کسان بڑی بھاری تعداد میں خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔ میڈیا کی خبروں پر مبنی ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں لوگ زیادہ تر پھندے سے اپنا گلا گھونٹ کر، خود سوزی کرکے یا زیادہ تعداد میں نشہ آور دوائیں کھا کرخودکشی کرتے ہیں۔
انسانی دماغ ہی وہ کارخانہ ہے جہاں سوچ جنم لیتی ہے اور پھر یہی سوچ آگے چل کر خودکشی کا محرک بنتی ہے ایک امید پرست شخص کو آدھا کلاس بھرا ہوا نظر آتا ہے جب کہ ایک مایوس شخص کو یہی آدھا گلاس خالی دکھائی دیتا ہے پس اصل معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔اس حوالے سے ہمیں اپنے ارد گرد نظر رکھنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ نا امیدی کا شکار لوگوں میں اپنے حالات کو قبول کرنے کے لیے ہمت و حوصلہ دیں تاکہ وہ زندگی سے مایوس نہ ہو جائے ۔
زندگی کبھی کسی کو مکمل نہیں ملتی اور نہ ہی مسائل سے پاک ملتی ہے ،وہ جو بظاہر بہت خوشحال نظر آتے ہیں ان کے مسائل ہم نہیں سمجھ سکتے اس لیے قدرت جو آپ کو دے رہی ہے وہ پوری ہمت سے قبول کیجئے ایسا کرنے سے زندگی سہل ہو جائے گی اور مثبت سوچیں آ پ کو اندھیرے میں بھی راستہ دکھاتی رہیں گی۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا