سیاست، معیشت اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بالی وڈ کی فلموں میں بھی مسلمانوں کے خلاف خو د ساختہ نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کی واضح مثال حال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ”کیرالہ سٹوری“ ہے۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب انڈیا کے کردار سے اسلاموفوبیا(مسلمانوں کے خلاف نفرت) کی بدبو آرہی ہو۔ اس سے قبل ”پدما وت“، ”تنجاہی“،”دی کشمیر فائلز“، ”ہم دو، ہمارے دو“ جیسی فلمیں اسلاموفوبیا کی واضح مثالیں ہیں۔ان تمام فلموں میں (جن کی کہانیاں من گھڑت اور خود ساختہ ہیں) مسلمانوں کو ولن،غیر تہذیب یافتہ، شدت پسند، بے رحم، سنگدل اور دشنام طراز دکھایا گیا ہے۔ ”کیرالہ سٹوری“ نے بھی دنیا میں مسلمانوں اور ان کے مذہب اسلام کو غیر مقبول بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔اس فلم کی وجہ سے انڈیا کی1ارب 40کروڑ آبادی کے دو اہم مذاہب، ہندو اور اسلام میں نفرت کو بڑھاوا دینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی 200ملین سے زیادہ ہے اور وہ تمام مسلمان اپنے ملک انڈیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود انڈیا کی سرکار سے لے کر فلم سازوں تک، سب نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور شدت پسند دکھانے کے علاوہ کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔انڈیا میں سالانہ 1ہزار فلمیں پروڈیوس کی جاتی ہیں لیکن ان تمام فلموں میں جہاں جہاں مسلمانوں کا کردار ہوگا اور وہ منفی ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر فلم”قابل ایکسپریس 2006“، ”نیو یارک2009“ اور ”بے بی2015“ میں بھی مسلمانوں کا کردار وہی دکھایا گیا ہے جو بالی وڈ کی ابتدائی فلموں سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ان فلموں میں خاص طور پر مسلمان عورتوں کو مظلوم، اور زبردستی کی شادی کا شکار ہونے والے کردردوں کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ جس سے اس نظریہ کو وسعت ملی ہے کہ تمام مسلمان خواتین مظلوم ہیں جو اپنی زندگی کے فیصلے خواہ وہ معیشت سے متعلق ہوں یا سیاست کے متعلق، شادی کے متعلق ہوں یا بچوں کی پرورش کے متعلق، وہ تمام فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح فلم ”ویر زارا 2004“ اور ”فنا 2006“کوبھی مسلمان خواتین کے کردار کو منفی دکھانے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
”کیرا سٹوری“ نے تو مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیرا لہ مسلمانوں خواتین کی بھرتی کی اہم جگہ ہے جہاں پر ہزاروں خواتین کو زور زبردستی ایک تنظیم میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر ان تمام خواتین کو شام میں لڑائی اورجنسی غلامی کے لئے بھیجا جاتا ہے۔فلم کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی بجائے ان کے مذہب اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کیسے اسلامی نظریات ایک عام،سادہ اور پڑھے لکھے شخص کو غیر مہذب، شدت پسند اور دہشت گرد بنا دیتے ہیں۔جس کی مثال اس فلم میں مسلمان عورتوں کے خلاف بولا گیا ایک ڈائیلاگ ہے جس میں ایک پیشوا اپنے پیروکاروں کو کچھ اس طرح سے مخاطب کر رہا ہے:
”انہیں قریب لے آؤاور نشہ پلاؤ، ان سے لطف اٹھاؤ اور اگر ممکن ہو سکے تو انہیں حاملہ کر دو“۔
اس کے علاوہ پاکستان مخالف بیانیہ میں بھی بالی وڈ پیش پیش رہا ہے۔ خاص طور ان تمام فلمو ں میں جن کا موضوع نیشل سکیورٹی، دہشتگردی اور بارڈر پار تعلقات ہوں۔ان تمام فلموں میں پاکستانی مسلمانوں کو بھی تخریب کار، دہشت گرد اور دو طرفہ تعلقات کی خرابی کی بنیاد بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ ”تیرے بن لادن2010“، ”فینٹم 2015“،”کارگل‘2003‘،”راضی2018“،”اڑی“ اور ”سرجیکل سٹرائیک2019“جیسی درجنوں بھارتی فلمیں ہیں جو پاکستان مخالف زہر اگلنے میں اپنا کردار ادا کرر ہی ہیں۔
بھارت کی جانب سے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف زہر اگلنے کا نہ تو یہ پہلا موقع ہے اور نہ ہی آخری۔ یہ سلسلہ اسی وقت سے چل رہا ہے جس وقت 1867ء میں اردو ہندی تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا۔اور اس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں، دونوں اقوام میں نفرت کی آگ بھڑکتی گئی ہے لیکن کبھی کم نہ ہوسکی۔یہاں پر مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام مل جل کر رہنے اور امن سے کام لینے کے حامی ہیں جس کی واضح مثال پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کا بھارت جا کر کام کرنا اور پھر کھلم کھلا امن کا پیغام دینا ہے۔ لیکن اس کے برعکس مسند اقتدار پر بیٹھے مودی سرکار اور ان کے فاشسٹ نظریات دونوں ممالک کے عوام کو کبھی قریب نہیں ہونے دیں گے۔کیونکہ ان کے اقتدار کی کرسی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز رویہ کی وجہ سے قائم ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں، خصوصا پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامو فیوبیا کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے سامنے پیش کریں اور اس بابت انڈیا کے منفی کردار کو تمام ممالک کے سامنے رکھیں تاکہ وہ اس خطے میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں کو مزید انتشار میں جھونکنے سے بچا سکیں۔
بالی وڈ سے ٹپکتا اسلام فوبیا
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔