گلوبل وارمنگ دنیا بھر کے ممالک کو متاثر کرنے والا ایک بڑا مسئلہ ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع اور سماجی و اقتصادی چیلنجوں کی وجہ سے پاکستان کو گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے متعدد ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان نے شدید نوعیت کے موسمی حالات سے گزرنا پڑا۔ جن میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ، سیلاب حتیٰ کہ کلاؤڈ برسٹ اور خشک سالی تک شامل ہیں۔
موسمیاتی سائنسدانوں کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ان واقعات کا تعلق گلوبل وارمنگ سے ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے گرمی کی شدت کو تیز کر دیا ہے، جس کی وجہ سے گرم موسم سے متعلقہ بیماریاں میں ناصرف اضافہ دیکھنے میں آیا بلکہ اموات کی شرح بھی زیادہ رہی۔ خاص طور پر کراچی جیسے گنجان آباد سمندری شہر میں جہاں پہلے موسم اتنے شدت اختیار نہیں کرتے تھے وہاں گرمی اور بارشوں نے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑے۔
دوسری جانب موسم کی خرابی کے باعث شمالی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شدید سیلاب اور جنوبی صوبوں میں طویل خشک سالی نے زراعت اور آبی وسائل کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اپنے میٹھے پانی کی سپلائی کے لیے اپنے گلیشیئرز اور سنو پیک پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو دریائے سندھ کے پانی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گلوبل وارمنگ کی وجہ سے یہ گلیشیئر خطرناک حد تک پگھل رہے ہیں۔ تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز ہر گزرتے دن کم ہو ہے ہیں اور ہر دس سال کے بعد اپنے حصے کا تقریباً سات فیصد کھو رہے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کی آبی صلاحیت، ضرورت اور سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، کیونکہ لاکھوں لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے دریائے سندھ پر انحصار کرتے ہیں۔ پانی کی کمی سماجی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے اور موجودہ معاشی تفاوت کو بڑھا سکتی ہے۔
ہم۔اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان بنیادی طور پر متنوع ماحولیاتی نظاموں کا گھر ہے، جن میں جنگلات، بارانی اور زرعی زمینیں اور سمندر شامل ہیں۔ گلوبل وارمنگ ملک کی حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس بتاتی ہیں کہ سطح سمندر میں اضافے سے ساحلی علاقوں کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے، جب کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ملک بھر میں پودوں اور جانوروں کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ بہت سی مقامی انواع کو معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے، اور حیاتیاتی تنوع کے اس نقصان سے ماحولیات اور انسانی بہبود پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔