ابنِ رشد عالم اسلام میں ایک اہم ترین مفکر گزرے ہیں جن کے سیاسی اور سماجی نظریات نے اس وقت کے ایوانوں میں ناصرف ہچل مچا دی بلکہ بعد کی نسلوں کے لیے بھی سوچنے کے لیے ایسے دروازے کھول گئے جس پر اگر مسلمانوں نے عمل کیا ہوتا تو آج اربوں میں ہو کر بھی محکوموں جیسی زندگی نہ گزار رہے ہوتے ۔ابن رشد علم فلسفہ اور طبی علوم کے مشہور ترین شخصیات میں سے ایک ہیں ۔آپ بیک وقت فلسفی، طبیب،قاضی القضاۃ اور محدث تھے۔ آپ کو نحو اور لغت پر بھی دسترس تھی اس کے علاوہ متنبی اور حبیب کے شعر کے حافظ بھی تھے۔آپ کے والد اور دادا قرطبہ کے قاضی رہ چکے تھے۔ انہیں قرطبہ سے بہت محبت تھی۔ ابنِ رشد نے عرب عقلیت پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں، انہوں نے اپنی ساری زندگی تلاش اور صفحات سیاہ کرنے میں گزاری۔ ان کے ہم عصر گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں سوائے دو راتوں کے کبھی بھی پڑھنا نہیں چھوڑا۔ پہلی رات وہ تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوا، اور دوسری رات جب ان کی شادی ہوئی۔انہیں شہرت کی کبھی طلب نہیں رہی، وہ علم ومعرفت کے ذریعے کمالِ انسانی پر یقین رکھتے تھے۔ ابن رشد کے نظریات پر یورپ میں بڑی تحقیق ہوئی ۔جن اپنوں کو ہم بھلا بیٹھے انہیں غیروں نے اپنا اور اپنے لیے نت نئی راہیں متعین کیں۔ جیسے موسیو رینان کی انگریزی تصنیف ” ابن رشد وفلسفہ ابن رشد ” ہے، جس کا اردو ترجمہ مولوی معشوق حسین خان نے کیا ہے۔اس کتاب میں مصنف نے ابن رشد اور اس کے فلسفے پر روشنی ڈالی ہے اور پھر ابن رشد کے فلسفے کی چند درسگاہوں کا تذکرہ کیا ہے۔
باقی افکار کی طرف جانے سے پہلے ابنِ رشد کے خواتین کے حوالے سے جاندار نظریات سے آگاہ ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ابن رشد عورت کی آزادی کا حامی تھا۔ اسکے خیال میں عورتیں جملہ علوم و فنون کا اکتساب بخوبی کر سکتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ چرواہے کی کتیاں بھی بھیڑوں کی حفاظت اسی طرح کرتی ہیں جیسا کہ کتے کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری تمدنی حالت عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی لیاقت کا اظہار کر سکیں۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ ان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کی جو صلاحیت تھی وہ فنا ہوکر رہ گئی۔ چنانچہ اب ہم میں ایک عورت بھی ایسی دکھائی نہیں دیتی جو تخلیقی محاسن سے آراستہ ہو۔ ابن رشد نے یہ بھی کہا تھا کہ اسکے عہد کی زبوں حالی اور غربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردوں نے عورتوں کو "گھر کے مویشی” اور "گملے کے پھول” بنا کر رکھا ہوا تھا۔عورت کو نا سمجھ اور کم عقل نہ جانو، اس کو اپنی تمدنی زندگی میں فعال کردار ادا کرنے دو، وہ اپنی صلاحیتوں اور لیاقتوں سے کئی جگہ مردوں سے بہتر نتیجہ دے سکتی ہیں۔
اب آتے ہیں ابن رشد کے ان نظریات کی طرف جن کی
( 1 ) مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں حکمران کی ذاتی اہلیت کا معیار یا تو خاندانی نسبت رہا ہے یا پھر اس سے گزر کر پارسائی اور تقوی شعاری کے ظاہری مظاہر، خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد مسلمانوں میں خاندانی بادشاہتوں کا رواج کسی وبا کے طرح پھیل گیا۔ چاہیے بنوامیہ ہوں، بنوعباس ہوں، خلفاء فاطمی، مرابطین، سلاجقہ، اتابکان، عثمانی اور مغل، یہ سب کے سب مسلم جغرافیے کی مشرق سے لے کر اس کے مغرب، یعنی ابن رشد کے جنم بھومی، اندلس تک، مسلمانوں کی حکمرانی تمام تر خاندانی ملوکیتوں پر مبنی رہی۔
گویا کہ ہر مسلم خطہ میں ایک برہمن خاندان کی اجارہ داری رہی جو انسانوں کو مال مویشیوں کی طرح باپ سے بیٹے کو میراث میں منتقل کرتے رہیں۔ ابن رشد نے حق اقتدار کے لیے خاندانی نسبت اور ظاہری پارسائی کے دونوں پیمانوں کی کفایت کو تسلیم نہیں کیا، آج کے زمانے میں حکمران کے ذاتی اوصاف کی مسئلے کو چھیڑنا آسان ہے لیکن جس عہد اور ماحول کے ساتھ ابن رشد کا تعلق تھا، اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس عہد میں حکمرانی کے مروجہ معیارات کو چیلنج کرنے کے لیے کس درجے کی ہمت اور کس سطح کی بصیرت درکار تھی۔
ابن رشد نے اُس زمانے کے رائج تصورات کے برعکس باقی تمام معیارات کا انکار کرتے ہوئے حکمران کے لیے حکمت اور کامل تعقل سے بہرہ مند ہونے کو نہ صرف ضروری شرائط میں سے ایک شرط قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے اس شرط کو اولین شرط کی حیثیت دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابن رشد پر زمین تنگ کردی گئی تھی اور انہیں جلاوطنی کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔
( 2 ) جبر و اختیار کا مسئلہ مسلم تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سوال کا تعلق صرف علم الکلام میں اشاعرہ، معتزلہ اور شیعہ مکاتب کے درمیان معرکہ آرائی کا موضوع بننے کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ فقہ اور سیاست کے ساتھ بھی یہ مسئلہ براہ راست متعلق رہا ہے، مثلا فقہ میں کسی سے جبرًا طلاق لینے کو مؤثر سمجھنے سے خلیفہ کے ساتھ بالجبر بیعت کو بھی مؤثر سمجھنے راستہ کھولا گیا، نظم اجتماعی کی تشکیل میں انسان کے ارادہ واختیار کا معاملہ نظری علم کے مقابلے میں عملی علم کی اہمیت سے بھی متعلق ہوجاتا ہے۔
ابن رشد اپنے کتاب ’الضروری فی السیاسہ‘ میں انسان کے مجبوریت اور اور پابند ہونے کے بجائے اس کے ارادے اور اختیار کے آزادی کی بات کرتا ہے۔ وہ عملی علم کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے انسانی عمل کی اہمیت کی وکالت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ”عملی علم کا موضوع وہ افعال ہیں جو انسان سے صادر ہوتے ہیں اور ان افعال کا بنیاد انسان کا ارادہ واختیار ہے۔ ابن رشد کی رائے ہے کہ انسانی ارتقا محض انسان کے انسان ہونے کی وجہ سے خود بخود ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے ارادے اور اختیار کے آزادانہ طور پر بروے کار رہنے کے مرہون منت ہے، نیز یہ کہ انسان کے ارادہ واختیار کا قوہ فعال ہونے کی صورت میں مزید مضبوط ہوجاتاہے جبکہ اس کو معطل رکھنے کی وجہ سے اس میں ضعف اور کمزوری آتی ہے کیونکہ ارادہ واختیار کی استعمال کے راستے سے انسان کی حرکت، اس کی مبدآ ہستی تک پہنچنے کی راستے میں معاون ثابت ہوتاہے ( التھافت التھافت صفحہ 225 )
( 3 ) ”سیاست فاضلہ“ اور ریاست فاضلہ سے مراد نظم اجتماعی کی وہ صورت ہے جو علم وفضل اور حکمت ودانش کے بنیاد پر استوار ہو۔ ابن رشد اس فن میں اپنے دوسرے پیشرووں کی طرح سیاست کے علمی بنیاد کی اہمیت پر زیادہ زور دیتا ہے، تاہم وہ کسی فرد کی ذات کو تمام کمالات کا مجموعہ اور مسند نشین حکمران کو عقل کل ثابت کرنے کے بجائے متفرق باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کو جمع کرکے انہیں امور مملکت کی انتظام میں استعمال کرنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں رائج پارلیمان کی موجودہ شکل کو ابن رشد کے اصطلاح میں وہی ”افاضل کی ریاست“ کہا جاسکتا ہے۔
( 4 ) ابن رشد معاشرے میں سچ کی ثقافت کے فروغ کو انسانی سعادت کا ایک ناگزیر عنصر سمجھتا ہے، تاہم لوگوں میں سچ بولنے کے فروغ اور جھوٹ سے نفرت پیدا کرنے کے لیے وہ ایک عجیب طرح کا بنیاد مہیا کرتاہے ( ہوسکتاہے آج کے مغربی ممالک کے سماج میں سچ بولنے کی رواج کی اساس بھی یہی ہو ) ابن رشد کہتے ہیں کہ انسان جب کائنات کا علمی اور مبنی برحقیقت شناخت حاصل کرتاہے تو اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ کائنات کا وجود حقیقی قوانین کے بنیاد پر قائم ہے، اس بنا پر انسان کائنات کے علم کا ”جیسا کہ حقیقت میں وہ ہے“ کا خواہاں ہوتا ہے، جب یہ ادراک انسان کو حاصل ہوجاتاہے تو خود انسان میں بھی اپنے قول وعمل میں سچ بولنے اور صداقت شعاری اپنانے کا مزاج پختہ ہوجاتا ہے۔ لہذا ابن رشد کہتے ہیں کہ انسان کو ٹھوس عقلی بنیاد زندگی کو دیکھنے کا معیار بنانا چاہیے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں اخلاقی بلندی پیدا کرنے کے لیے وہ فرضی قصے کہانیوں اور شاعرانہ تمثیلات سے کام لینے کو بھی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
( 5 ) ابن رشد سماج کی اصلاح اور اخلاقی ترقی کے لیے کسی بھی طرح کی جست لگانے اور انقلاب برپا کرنے کو نا ممکن سمجھتے ہیں، ان کا کہناہے کہ جس طرح انسان کے ذین میں نظری علوم راسخ کرنے کے لیے اس تعلیم دینی پڑتی ہے، چیزیں یاد کرانی پڑتی ہیں، اسی طرح انسانی رویئے اور اخلاقی سسٹم تبدیل کرنے کے لیے انہیں مثبت اقدار کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور یہ عمل تدریج اور ترتیب کے ساتھ ہی انجام پاتا ہے نہ کہ انقلاب سے۔