الکیمسٹ کا شمار دنیا کے بہترین ناولز میں ہوتا ہے، یہ ناول برازیل کے مشہور مصنف پاﺅلو کوہیلو نے پرتگالی زبان میں 1987ءمیں لکھا تھا۔ پاؤلو نے ناول محض دو ہفتوں میں مکمل کیا تھا۔ 1988 میں اس کی اشاعت ہوئی اور 1993ءمیں اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا اور یہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیسٹ سیلر بن گیا۔ یہ دنیا کے ان چند ناولز میں شامل ہے جن کے ترجمے تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔الکیمسٹ کی جتنی کاپیاں بکی ہیں اتنی تو برازیلی ادب کی تاریخ میں اب تک کوئی کتاب نہیں بکی۔ کیونکہ یہ خواب، امید اور یقین کی باتیں ہیں، یہ گمان اور خواب سے حقیقت کا سفر ہے جہاں آپ اپنے دل کی آوازیں سن کر حقیقت تک پہنچتے ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں۔ الکیمسٹ پڑھ کر میرا یہ یقین مزید توانا ہو جاتا ہے کہ سچ کی تلاش میں جتنے مرضی سفر کر لو ، وہ ہوتا آپ کے آس پاس ہی ہے ، آپ کو بس اسے تسلیم کرنا ہوتا ہے ، سچائی وہ خزانہ ہے جو ہماری ذات کے اندر ہی مدفون ہوتا ہے اور اس کی کھوج میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں ، دھوکے کھاتے ہیں ۔
پاؤلو کے ناول الکیمسٹ کی کہانی ایک ایسے اٹھارہ سالہ آوارہ گرد گڈریے سانتیاگو کی ہے جس کا تعلق اندلس کے ہسپانوی علاقے سے تھا ۔ جس نے ایک ہی خواب دو بار دیکھا تو ایک بڑھیا اسے اس کے خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا اور پھر ایک بوڑھا جو خود کو بادشاہ کے لقب سے پکارتا ہے ، اسے بتاتا ہے کہ اسے اس کا خزانہ کہاں ملے گا۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ اہرام مصر کے قریب ایک مدفون خزانہ اس کا منتظر ہے۔یوں سانتیا گو جسے ماں باپ پادری بنانا چاہتے تھے اور جو کوہلو کی طرح ہی عیسائیت کی طرف راغب نہیں ہو رہا اور جو کتابوں کا شوقین تھا اور نئی دنیائیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے مسلسل نظر آنے والے خواب کو حقیقت سمجھا اور تعیبر کی خواہش میں سفر کی تیاری میں لگ گیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی بھیڑیں بیچ دی اور اپنے وطن سے شمالی افریقہ پہنچا اور پھر مصری صحرا سے ہوتا ہوا اہرام مصر جا نکلا۔
راستے میں اس کی کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اسے ایک تاجر کی لڑکی ملی۔ ایک خانہ بدوش عورت سے ملاقات ہوئی۔ ایک بادشاہ سے سامنا ہوا، ایک کرسٹل مرچنٹ سے شناسائی ہوئی اور ایک کیمیاگر سے آمنا سامنا ہو جس کی عمر دو سو سال ہوتی ہے ، اس کی مدد کرتا ہے ، لیکن سانتیا گو جب اہرام مصر پہنچتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ خزانہ تو یہاں نہیں، بلکہ وہ تو اس کے اپنے گھر اندلس میں تھا ۔ یوں وہ واپس اپنے وطن لوٹتا ہے اور خزانہ حاصل کرلیتا ہے۔ان کے علاوہ فاطمہ نامی خوبصورت عورت ملی پاؤلو کے اس ناول کے یہ کردار اپنے انہی پیشہ ورانہ ناموں سے اس گڈریے کی کہانی کا حصہ بنے ، سوائے فاطمہ کے جس کے پاس خزانے کو پا لینے کے بعد اسے واپس لوٹنا ہے ۔
الکیمسٹ میں خزانے کی تلاش کے ساتھ ساتھ کیمیاگری کی حیرت انگیز باتوں پر مشتمل حصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں مگر بین السطور جس بات کو پاؤلو نے بڑا نمایاں کیا وہ یہ ہے کہ انسان کو دل کی آواز پر متوجہ رہنا چاہیے جو قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرتی ہے اور اللہ کی نشانیاں اور شگون انسان کی انگلی تھامے اسے اس کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں .الکیمسٹ کو اگر کوئی دوسرا عنوان دینا ہو تو وہ اس سے زیادہ موزوں کوئی اور عنوان نہیں بنتا زندگی خوابوں کے تعاقب میں ایک طویل سفر ہے.پاؤلو کویلہو کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو ایک لمحہ کے لئے بھی عدم توجہی کا شکار نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے اس کہانی کا ایک کردار بناکر حرف اول تا حرف آخر ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔
ایک نقاد اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ
الکیمسٹ کو پڑھنے کے بعد دیگر نقادوں کی طرح میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ یہ خوابوں کی کتاب ہے اور یہ خواب صرف کوہلو ہی کے نہیں بلکہ ہم سب کے خواب ہیں اور چونکہ یہ کتاب ہمارے خوابوں سے متعلق ہے، اس لیے یہ زیادہ پسند کی گیاور اسے زیادہ تعداد میں خریدا بھی گیا اور آج بھی یہ کتاب پسندیدگی کے حوالے سے اسی درجے پر قائم ہے ۔ اس کی مقبولیت میں کمی نہ آنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب بات خوابوں کی ہو تو پھر ان کے حصول کے لیے ارادے باندھنا پڑھتے ہیں سفر کے لیے نکلنا ہی پڑتا ہے ۔ اس نکتے کو شاعر نے کیا ہی عمدہ انداز میں بیان کیا ہے کہ
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جو عمر مفت گنوائے گا
وہ آخر کو پچھتائے گا
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا
تو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا
یہ دنیا آخر فانی ہے
اور جان بھی اک دن جانی ہے
پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
جب ہمت کی جولانی ہے
تو پتھر بھی پھر پانی ہے
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ درحقیقت کوہلو ایک امید پرست اور مثبت سوچ کے مالک انسان ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ الکمیسٹ میں کوہلو کا ایک ہی پیغام ہے کہ ہمیں اپنے دلوں سے ناکامی کا خوف ختم کر دینا چایئے، کیونکہ یہی خوف ہمیں تباہی سے دو چار کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہمارے دل میں کوئی خواہش سر اٹھاتی ہے تو تمام کائنات اس سازش میں شریک ہوجاتی ہے کہ ہماری یہ خواہش پوری ہو ، اس حوالے سے جب ہم صحرا سے بات کریں گے تو اسے بھی زبان مل جائے گی اور وہ ہماری مدد کرے گا ، سورج بھی ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہوجائے گا اور ہوائیں بھی ہماری مرضی کے مطابق چلیں گی ۔ بس شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے خوابوں سے پیار ہونا چایئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں رہنمائی نہ مل رہی ہو تو ہمیں علامتوں کی زبان سمجھنی ہوگی ، ان پر بھروسہ کرنا ہوگا اور اس طرح یہ علامتیں ہی ہمیں اپنے منزل تک پہنچائیں گی۔ یوں کوہلو کا یہ ناول رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں کی طرح حکمت اور دانائی کی ایک کتاب ہے جو ہمیں سخت اور مشکل حالات میں مایوسی سے دور رکھتی ہے اور یہاں ہر مقام پر ہمیں دانش کا ایک خزانہ ملتا ہے۔