آپ نے اب تک موہنجودڑو،ہڑپہ اور بابل وغیرہ کی قدیم ترین تہذیبوں کے بارے میں سنا ہوگا اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ تمام شہر وقت کیساتھ ختم ہوگئے مگر ہم آج آپکو ایک ایسے شہر سے متعارف کروانے جارہے ہیں جس کی تہذیب ان تمام شہروں کی نسبت نہ صرف زیادہ پرانی ہے بلکہ یہ شہر آج بھی زندہ اور آباد ہے اور وہاں دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بستے ہیں جی ہاں یہ شہر ہے دیپالپور۔
دیپالپور شہر برصغیر پاک وہند کا قدیم ترین زندہ شہر ہے۔جو کئی بار امتداد زمانہ کا شکار ہوکر مسمار ہوامگرہربار اس کے کھنڈرات پر پھر سے آبادکاری ہوگئی اور دیپالپور آج بھی زمین کے سینے پر اپنی پوری آب و تاب کیساتھ موجود ہے۔
جنوبی پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں واقع تحصیل دیپالپور کو اگر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک کہاجائے تو شائد غلط نہ ہوگا
مشہور بنگالی مورخ ابناش چندرداس کی کتاب ”رگ ویدک آف انڈیا” کے مطابق اس شہر کا پہلا نام سری پور یا سری نگر تھا جسے بعد ازاں سیالکوٹ کے راجہ سلواہان کے بھائی دیپاچند نے اپنے بیٹے راجہ دیپاکے نام پر دیپاپور رکھ دیا جو وقت کیساتھ ساتھ دیپالپور میں تبدیل ہوگیا۔
سو ایکٹر رقبے پر محیط قلعہ دیپالپور کی نایاب سرخ اینٹوں سے بنی پچیس فٹ چوڑی دیواریں اگرچہ آج گردش ایام نے منہدم کردی ہیں مگر ان ٹوٹی پھوٹی دیواروں کے پار آج بھی دیکھنے والوں کیلئے بہت سی داستانیں بہرحال موجود ہیں جن پر وقت کی گرد نے دبیز تہہ چڑھا دی ہے۔
ماضی کا دیپالپور اس قلعے کے اندر تک محدود تھا اس قلعے کے دروازوں پر زمانہ قدیم کے مطابق چوکیاں بنائی گئی تھیں جو دشمنوں پر نظر رکھنے کیلئے بنائی جاتی تھیں یہ چوکیاں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
قلعے کے درودیوار آج بھی وہ داستانیں بیان کرتے نظر آتے ہیں جب سکندراعظم نے 325قبل مسیح میں پوری دنیا میں یلغار کرتا ہوا یہاں پہنچا تو اس کے قدم رک گئے اور یہاں پر ہی ایک معرکے میں شدید زخمی ہوگیا اور یہی زخماس کی موت کا باعث بھی بنا جب واپس جاتے ہوئے بابل کے مقام پر وہ جہان فانی سے کوچ کرگیا۔
بارھویں صدی عیسوی میں جب غیاث الدین تغلق دیپالپور کا حاکم تھا اس وقت اٹھنے والے تاتاری سیلاب کو بھی قلعہ دیپالپور میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس جنگ میں قلعے کو کافی نقصان پہنچا جسے 1244ء میں غیاث الدین تغلق نے پھر سے مرمت کیا 1526ء میں جب ظہیرالدین بابر نے برصغیر پر حملہ کیا تو اسے بھی سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا قلعہ دیپالپور میں کرنا پڑا۔جس کا اعتراف اس نے اپنی کتاب تزک بابری میں کیا ہے۔
قلعہ دیپالپور کے چار دروازے تھے مشرقی گیٹ کو دہلی دروازہ،مغربی گیٹ کو ملتانی دروازہ،شمالی گیٹ کو لاہوری دروازہ اور جنوبی گیٹ کو بیکانیری گیٹ کہتے تھے ان میں مشرقی اور مغربی گیٹ تو موجود ہیں تاہم شمالی اور جنوبی گیٹ ختم ہوچکے ہیں۔
قلعہ دیپالپور پہلی بار کب تعمیر ہوا اس کی تاریخ میں کوئی واضح تاریخ نہیں ملتی تاہم چودھویں صدی عیسوی میں فیروزشاہ تغلق نے آخری بار اس مضبوط قلعے کی مرمت اور تعمیر نو کی۔
فیروز شاہ تغلق نے قلعہ دیپالپور میں ایک کشادہ سرنگ بنوائی تھی جس میں نہ صرف روشنی اور ہوا کا مناسب انتظام تھا بلکہ یہ اتنی چوڑی تھی کہ دو گھوڑے بیک وقت اس میں دوڑ سکتے تھے اس کے علاوہ اس نے ایک بہت بڑی شاہی مسجد بھی بنوائی جو کہ آج بھی موجود ہے۔
قلعہ دیپالپور میں ہندوؤں کے کئی مندر بھی تھے جن میں پوجا پاٹ کیلئے ہندوستان سے لوگ آتے بھی رہے مگر 1992ء میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو مقامی لوگوں نے ان مندروں کو منہدم کرکے ان پر قبضہ کرلیا اور اپنی رہائشیں بنالیں۔
قلعہ دیپالپور میں لالو جسرائے نامی کالونی میں ایک مندر کے آثار آج بھی موجود ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں لالو نامی بچہ اپنی ماں کی بددعا کے نتیجے میں زندہ زمین میں گڑھ گیا تھا جس جگہ وہ غرق ہوا وہاں پر مندر بنادیا گیا وہ مندر تو اب ختم ہوچکا ہے تاہم لالو کے غرق ہونے کی جگہ پر آج بھی ایک پتھر کی چھوٹی سی سلیٹ نشانی کے طور پر پڑی ہوئی ہے۔
اسی مندر سے ملحقہ تباہ حال کمرے کے بارے میں یہاں پر رہائش پزیر اسدللہ نامی شخص نے بتایا کہ فیروزتغلق کی بنائی گئی سرنگ کا ایک دھانہ یہاں پر تھا جو کہ اب بند ہوچکا ہے دوسرے دھانے کا کسی کو کوئی پتہ نہیں۔
قلعہ میں ایک ڈبل سٹوری سرائے بھی موجود ہے جس کے ہر کمرے کیساتھ ہندی زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے جو کہ نیم پلیٹ بھی ہوسکتی ہے اس کے کچھ کمرے کھلے ہیں جہاں مقامی لوگ آباد ہوچکے ہیں لیکن اکثر دروازوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
میاں اللہ دتہ نسیم نے اپنی کتاب تاریخ دیپالپور میں لکھا ہے کہ قلعہ دیپالپور برصغیر پاک و ہند کا ایک یادگار تاریخی مقام ہے جس کی طرف حکومتی توجہ نہ صرف سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے اور لوگوں کوایسا مقام دیکھنے کو ملے گا جو اب تک دنیا سے اوجھل ہے بلکہ اس اقدام سے مقامی لوگوں کی معیشت بھی بہتر ہوگی۔
نامور سکالر پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ نے دیپالپور کے تاریخی ورثے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقہ برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتاہے جہاں سکندراعظم سے لے کر تاتاریوں اور مغلوں تک کی یادگاریں ہیں مگر افسوس کسی بھی حکومت نے اس نایاب ورثے کی حفاظت کیلئے اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے دیپالپور کے درودیوار اپناحسن کھورہے ہیں انہوں نے کہا کہ قلعہ دیپالپور جیسا مقام اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو اس قدر خستہ حالی کا ہرگز شکارنہ ہوتا ان کا کہنا تھا کہ مقامی عوامی نمائندوں اور محکمہ آثارقدیمہ کی غفلت کے باعث ایک طرف تویہ تاریخی مقام کھنڈر کی شکل اختیار کرچکا ہے تو دوسری جانب بلدیہ دیپالپور کی مسلسل عدم دلچسپی اور ٹھیکیداری کلچرکے فروغ نے یہاں کے مکینوں کی زندگیاں بھی اجیرن کردی ہیں کیوں کہ مقامی سیاسےدان اپنے مفادات اور بھاری کمیشن کیلئے ان ٹھیکیداروں کو کروڑوں کے ٹھیکے دیتے ہیں جن کے استعمال کردہ ناقص میٹیریل کی وجہ سے سیوریج سسٹم مکمل طورپرفلاپ ہوچکا ہے اور متعدد بار لوگوں کے مکانات گرچکے ہیں اس ٹھیکیداری کلچر کے باعث بعض ٹھیکیداراور ارکان اسمبلی کے چہتے تو مالامال ہوگئے مگر عوام کا کوئی پرسان حال نہیں انہوں نے کہا کہ قلعہ دیپالپور ہمارا قیمتی ورثہ اور تاریخی اثاثہ ہے اگر اب بھی اس جانب توجہ دیتے ہوئے اس میں موجود تاریخی مقامات کی تزئین و آرائش کی جائے تو اب بھی یہ ایسا سیاحتی مقام بن سکتا ہے کہ پوری دنیا سے سیاح یہاں پر سیروتفریح کیلئے آئیں گے۔